• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فسانہ شب غم ان کو اک کہانی تھی
کچھ اعتبار کیا کچھ نہ اعتبار کیا
غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
داغ دہلوی کے مندرجہ بالا اشعار9مارچ کو راولپنڈی میں ہونے والے بم دھماکے اور معصوم اور بے گناہ شہریوں کی جانوں کے ضیاع کے تناظر میں میرے ذہن میں آگئے طالبان کا وعدہ جنگ بندی کاتھا اور بقول ان کے وہ اس پر قائم ہیں اور اس دھماکے سے انکا کوئی تعلق نہیں اور وہ بے گناہ لوگوں کی جان نہیں لیتے ، عوام یہ سوال پوچھتے ہیں کہ پھر یہ دھماکہ کس نے کیا ؟ ایک آدمی نے بڑی خوبصورت بات کی ، اس نے کہا کہ اگر یہ دھماکہ طالبان نے نہیں کیا تو پھر حکومت کو مذاکرات ان لوگوں سے کرنے چاہیں جو دھماکے کررہے ہیں تاکہ دھماکے رک جائیں ، مشورہ برا نہیں ہے مگر بات پھر وہی ہے کہ شیر کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا، کیسے معلوم ہوگا کہ یہ کون لوگ ہیں، اور جب تک وہ اپنا اتا پتہ نہیں بتائیں گے ان کے ساتھ مذاکرات کیسے ہونگے حکومت نے تو مذاکرات کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ اس لئے تمام گروپوں سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے وزیر داخلہ کواپنے نام اور پتے ارسال کردیں تاکہ ان سے بھی مذاکرات شروع کردیئے جائیں اور اس طرح معصوم اور بے گناہ لوگوں کو ناگہانی آفتوں سے بچانے کا کوئی پرامن راستہ دریافت ہوجائے فی الحال توکوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ کچھ قیدیوں کی رہائی کی خبریں سننے میں آرہی ہیں کراچی بھی گزشتہ چند دنوں سے دوبارہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور10سے چودہ اموات روزانہ کی خبریں آرہی ہیں ہمارے ایک وکیل بھائی وقار شاہ اور ایک ڈاکٹر صاحب کی افسوسناک شہادت کی خبر آئی، مدرسے کے طالبعلموں کی شہادت کی خبریں موصول ہوئیں، سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ سرے کو کہاں سے پکڑیں، پولیس یہ توبتادیتی ہے کہ فلاں دہشت گرد گرفتار ہوگیا مگر یہ نہیں بتاتی کہ اس کا تعلق کونسی جماعت سے تھا اور وہ کس کے ایما پر کام کررہا تھا اور اس کا ایجنڈا کیا ہے یہ تمام باتیں سوال بن کر ہر ذی شعور شہری کے دماغ میں ابھرتی ہیں مگر جواب نہ پاکر لہروں کی طرح واپس لوٹ جاتی ہیں ۔
خبر تو یقیناً پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کومل جاتی ہوگی مگر پھر اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا ، ناسور کوجڑ سے کاٹ کرکیوں پھینکا نہیں جاتا مصلحت پسندی کیونکر آڑے آجاتی ہے ، مسئلے کادیرپا حل کیوں نہیں نکلتا اور یہ کیوں طے نہیں ہوتا ؟ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب کراچی امن کا گہوارہ تھا جہاں ملک کے تمام صوبوں اور شہروں سے آئے ہوئے لوگ روزگار پر لگے ہوئے تھے یہ غریب پرور شہر کہلاتا تھا اور مزدوروں اور غریب لوگوں کے لئے یہاں کے ہوٹلوں پر ملک میں سب سے زیادہ سستا کھانا ملتا تھا پھر نہ جانے کس بد نظر کی نظر لگ گئی اور سارا شہر دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا ، ہرورز کوئی نہ کوئی افسوسناک سانحہ سننے کوملتا ہے آپریشن شروع ہوئے ہوئے بھی کئی ماہ گزر گئے ہیں یوں لگتا ہے کہ یہ کوئی کینسر کا آپریشن ہے کہ جوں جوں علاج بڑھتا ہے مرض بھی بڑھتا چلا جارہا ہے دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے حکومت نے تحفظ پاکستان آرڈنیس کابل فوراً منظور کرلیا اور اس طرح وہ ایکٹ بن گیا میں نے شاید پہلے بھی لکھا تھا ہماری جوانی کے دنوں میں ڈی پی آر کاقانون ہوتا تھا اور جس کوچاہتے تھے اس میں بند کردیتے تھے بھٹو صاحب نے الطاف گوہر کوڈی پی آر میں بند کیا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس طفیل علی عبدالرحمن نے رہا کیا تھا پھر 1975 میںSTAایک اسپشل قانون آیا جس میں سخت سزائیں رکھی گئیں ضمانت کی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی اور یہ بھی لکھا گیا تھا کہ جوملزم پکڑا جائے وہ ثابت کرے کہ وہ بے گناہ ہے اسی قانون کے تحت مرتضیٰ بھٹو کا قتل کیس ملزمان کے خلاف چلا ۔ عدالتوں نے قانون کی تشریح کرتے ہوئے ضمانتیں بھی دیں اور یہ کہا کہ پہلے استغاثہ اپنا کیس ثابت کرے اس کے بعد ملزم خود کوبے گناہ ظاہر کرے اس کے بعد پرویز مشرف کے دور میں بھیNABکا قانون آیا جس میں90دن کے لئے بغیرروک ٹوک کے پولیس کسٹڈی تھی صرف ریمانڈ کے لئے لانا پڑتا تھا پھر اس قانون کی بے شمار شقیں سپریم کورٹ کے آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیتے ہوئے ختم کردیں اور ضمانت کاحق آئین کے تحت دیدیا ایس ٹی اے کاقانون اپنی موت خود مرگیا پھر نواز شریف نے اپنے پچھلے دور میں اسپیڈی ٹرائل کا ایکٹ دیا تھا وہ کے جاتے ہی ختم ہوگیا اس کے بعد اینٹی ٹیرر رسٹ ایکٹویٹی کا قانون آیا جسےATAکہتے ہیں وہ ابھی نافذ ہے اب اس کے ہوتے ہوئے تحفظ پاکستان آرڈنینس آگیا قانون جتنے سخت بھی بنائے جائیں میرے خیال میں جرائم کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہوتی کیونکہ جرائم کی تعداد میں کمی کرنے کے لئے سب سے پہلے معاشی نظام درست کرنا پڑتا ہے۔ جب جرم ذریعہ معاش بن جائے تو پھر جرائم میں کمی کامطلب مجرموں کی معاشی سرکوبی ہے جوکہ نہ تو وہ برداشت کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی معیشت کوخراب ہونے دیتے ہیں وہ پھر اس کی نئی نئی ترکیبیں نکالتے ہیں کاروں کاچھیننا اور پھر فروخت، ناجائز اسلحہ کی فروخت، جسم فروشی یہ تمام کاروبار مجرموں کی معیشت سے متعلق ہیں اور یہ جرم کرنے والے نہ صرف اپنا پیٹ پالتے ہیں بلکہ پولیس کے اخراجات بھی برداشت کرتے ہیں سٹے اور جوئے کے اڈے چلانے والے پتہ نہیں کہاں کہاں بھتہ دیتے ہیں ہا ئیڈرنٹ سے غیر قانونی پانی چوری کرکے بیچنے والے کتنے سرکاری ملازموں کا پیٹ پالتے ہیں، ریتی اور بجری غیر قانونی طور پر اٹھائی اور فروخت کی جاتی ہے یہ بہت بڑا کاروبار ہے زمینوں پر قبضے اور ان کی فروخت اور خالی کروانے کے پیسے ایک بہت بڑا کاروبار ہے ان تمام کاروباروں میں بہت پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں جنکی آشیرباد کے بغیر یہ کاروبار ممکن ہی نہیں اسکے علاوہ وائٹ کالر کرائم انکی ایک بہت بڑی فہرست ہے۔ ہمارے حکومتی ارکان مل کر صرف فوج، آمریت اور مشرف کی مالا جپ رہے ہیں انہیں یہ تمام معاشی جرائم نظر ہی نہیں آرہے، میری دعا ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس سے ملک کا تحفظ ہوجائے اور یہ ملک جس کو اللہ نے بے شمار وسائل سے مالا مال کیا ہے صحیح پٹری پر چڑھ جائے۔ یہ بڑا پیارا ملک ہے مگر افسوس کہ ہم نے اس کی قدر نہیں کی آخر میں منیر نیازی کے حسب حال اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں
بے نتیجہ بے ثمر جنگ وجدل سودوزیاں
ساری جیتیں ایک جیسی ساری ماتیں ایک سی
سب ملاقاتوں کا مقصد کاروبار زرگری
سب کی دہشت ایک جیسی، سب گھاتیں ایک سی
تازہ ترین