• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جگر ہمارے جسم کا ایسا چوتھا عضو ہے، جس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں۔ پھیپھڑوں اور گُردوں کی جگہ مشینوں نے لے لی ہے اور اُن کے توسّط سے کسی انسان کو زندہ بھی رکھا جاسکتا ہے، لیکن جگر کے متبادل کے طور پر ابھی تک ایسی کوئی مشین یا آلہ ایجاد نہیں ہوسکا۔ تاہم، اِس ضمن میں کچھ نمایاں کام یابیاں ضرور ہوئی ہیں۔ 

ہمارے معاشرے میں یونانی یا دیسی طریقۂ علاج کی بدولت جگر کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے اور ہمارے خطّے کے حکیموں نے اپنے اپنے طور طریقوں سے اِس عضو کی بیماریوں پر بہت کام کیا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طبّی تحقیق کا کام مدّتوں سے مغرب ہی کے پاس ہے اور پوری دنیا وہاں ہونے والی تحقیق ہی سے استفادہ کر رہی ہے کہ برّ ِصغیر کے حکماء نے گزشتہ تین صدیوں میں کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ یہ الگ بات کہ بنیادی طور پر طب پر کام عرب مسلمانوں ہی نے شروع کیا تھا، مگر پھر دیگر امور میں الجھ کر سب کچھ مغرب ہی پر چھوڑ دیا۔

واضح رہے، اگر جگر کا کوئی مرض لاحق ہوجائے، تو اُس کی علامات اکثر اُس وقت ہی نمایاں ہوتی ہیں، جب بیماری بہت پیچیدہ ہوچُکی ہوتی ہے۔ اِن علامات میں پیٹ میں پانی کا جمع ہوجانا اور یرقان خاص طور پر اہم ہیں اور یہ دونوں علامات آسانی سے نوٹ بھی کی جاسکتی ہیں۔ یرقان، جسے عام طور پر پیلیا یا JAUNDICE کہتے ہیں، جگر کی بیماری کی ایک بنیادی علامت ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ یرقان صرف جگر کی کسی خرابی ہی کے سبب ہو۔

دراصل، ہمارے خون کے سُرخ جسیمے جب اپنی زندگی، جو تقریباً 120دن ہوتی ہے، پوری کرلیتے ہیں، تو پَھٹ کر ختم ہوجاتے ہیں اور اُن سے نکلنے والے مادّے کو جگر صاف کرکے اُن کا اخراج کرتا ہے، لیکن اگر یہ مواد خارج نہ ہوسکے یا اس کی مقدار بڑھ جائے، تو دونوں صُورتوں میں یرقان نمودار ہوجاتا ہے، سو یہ طے کرلینا کہ یرقان صرف جگر ہی کی وجہ سے ہوتا ہے، قطعاً غلط تصوّر ہے، لیکن چوں کہ خون کے سُرخ جسیمے یک دَم نہیں ٹوٹتے، لہٰذا اگر یرقان ان کے سبب ہو، تو نسبتاً کم نمایاں ہوتا ہے، جب کہ جگر یا جگر کے بعض حصّوں کی رکاوٹ یا سُوجن کے باعث ہونے والا یرقان زیادہ گہرا اور نمایاں ہوتا ہے۔ جب کہ شدید رکاوٹ کی صُورت میں جِلد پر خارش بھی شروع ہوجاتی ہے، جو خاصی خشک ہوتی ہے۔ یرقان ہوجانے سے پیشاب پیلا، پاخانہ ہلکا زردی مائل ہوجاتا ہے، تو آنکھوں کے ساتھ، جسم بھی پیلا ہونے لگتا ہے۔

جگر کی بیماری کی دوسری اہم علامت، جگر کی اپنی سوجن ہے، جس کے باعث پیٹ میں دائیں، اوپری حصّے میں ہر وقت ایک بوجھ کا احساس اور ہلکی سی دُکھن محسوس ہوتی رہتی ہے۔ زیادہ دیر تک بیٹھنے سے اس میں شدّت آنے لگتی ہے، خاص طور پر اگر جسم موٹا ہے، تو تکلیف ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ مریض بار بار کھڑا ہوتا ہے یا اپنا سینہ پیچھے کی جانب موڑتا رہتا ہے۔ایسے میں اگر جگر پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دبایا جائے، تو شدید درد کا احساس ہوتا ہے، لیکن جب تک متاثرہ فرد، ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے، تو عموماً جگر کے سائز میں اضافہ ہوچُکا ہوتا ہے۔ 

بعض صُورتوں میں تو جگر کا حجم بہت ہی بڑھ جاتا ہے، جن میں خاص طور پر مختلف اقسام کی رکاوٹیں شامل ہیں۔ مثلاً ٹیومر، کینسر، انفیکشن وغیرہ اور بسا اوقات جگر میں واضح طور پر گٹھلیاں بھی محسوس ہوتی ہیں۔ اگر جگر میں پیپ کی گانٹھ بن جائے، تو سردی کے ساتھ شدید بخار، دائیں کندھے اور جگر میں شدید درد ہوسکتا ہے۔

اِس مرحلے پر مریض کو فوراً علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔یاد رہے، جگر کی سُوجن میں بہت سی ایسی بیماریاں بھی شامل ہیں، جن کا جگر سے براہِ راست تعلق نہیں ہوتا، مثلاً دل کی شدید کم زوری، جس میں جسم میں پانی رُکنا شروع ہوجائے، تو جگر پر بھی اُس کے اثرات مرتّب ہوتے ہیں یا دل کی جھلّی میں سکڑاؤ آجائے یا دل کے اطراف میں پانی بَھر جائے، تو اس کا دباؤ بھی جگر کی جانب ہوجاتا ہے اور وہ سُوجنے لگتا ہے۔

پھر جگرکے دباؤکو تلّی (Spleen) بھی شیئر کرتی ہے اور اُس کا سائز بڑھنے لگتا ہے، لیکن اگر جگر پر دباؤ زیادہ بڑھ جائے، تو اس کے اثرات اُن اعضا پر بھی دِکھائی دیتے ہیں، جن کا راستہ جگر کی جانب جاتا ہے۔یوں دباؤ بڑھنے سے اُن اعضا کا سائز بھی بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ اِس صُورت میں تلّی کے حجم میں اضافہ ہونے لگتا ہے، جب کہ خون کی وریدیں(نسیں) پُھولنے لگتی ہیں، جن کی مقرّرہ جگہ کھانے اور پاخانے کی نالیاں ہیں، جہاں سے خون بھی آنے لگتا ہے۔ یعنی خون کی قے، کالے پاخانے اور پاخانے کے ساتھ زیادہ خون کا اخراج کی واضح علامات ہیں۔

جگر کی بیماریوں کی کچھ علامات ہاتھوں یا ناخنوں پر بھی دِکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً بیماری کی صُورت میں ہتھیلیاں غیر ضروری طور پر بے حد سُرخ ہوجاتی ہیں، جب کہ ناخن، مرغے کے ناخنوں کی مانند ہوبے لگتے ہیں۔ تاہم، یہ بہت بعد کی علامات ہیں۔ جسم پر خشک کھجلی اور پیروں یا کولھوں پر ورم بھی جگر کی خرابی کی علامات میں شامل ہیں۔جب جگر بے حد کم زور ہوچُکا ہوتا ہے، تو وہ اپنے افعال درست طور پر انجام نہ دینے کے سبب کچھ پروٹینز پیدا نہیں کرپاتا، جن میں البیومن اور کچھ نمکیات وغیرہ شامل ہیں۔

نیز، جسم سے فاسد مادّے بھی خارج نہیں کرپاتا، تو یہ مادّے جسم میں جمع ہونے لگتے ہیں۔ یاد رہے، یہ فاسد مادّے، انتڑیوں میں موجود فضلے سے بنتے ہیں اور جگر اُنہیں ختم کرتا رہتا ہے، لیکن جب جگر خود بیمار یا کم زور ہوجائے، تو یہ مادّے جسم میں جمع ہوجاتے ہیں، ان میں امونیا خاص طور پر اہم ہے، جو ہمارے دماغ کو متاثر کرتا ہے۔

امونیا میں اضافے کے سبب دماغ اپنے افعال درست طور پر انجام نہیں دے پاتا، نتیجتاً نیند شدید متاثر ہوجاتی ہے۔ متاثرہ فرد رات بَھر جاگتا اور دن میں سوتا رہتا ہے یا یادداشت سخت متاثر ہونے لگتی ہے یا اُلٹی سیدھی حرکتیں سرزد ہونے لگتی ہیں۔مریض کے اہلِ خانہ سمجھتے ہیں کہ شاید کسی بھوت پریت کا سایہ ہوگیا ہے، تو کسی مستند معالج سے رجوع کی بجائے پیروں، فقیروں کے چکر میں الجھ جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں جگر کے امراض میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ عوام اِس ضمن میں ضروری معلومات، شعور و آگہی سے عاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اِن بیماریوں سے متعلق طرح طرح کے بے بنیاد تصوّرات میں گرفتار ہیں اور اِس بابت اُن کے پاس عجیب و غریب کہانیاں ہیں۔ مثلاً آپ کسی سے یرقان سے متعلق بات کریں، وہ ایسی ایسی کہانیاں سنائے گا کہ الامان والحفیظ۔ اِسی طرح مختلف علامات کو بے جا طور پر بھی جگر سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ مثلاً سینے میں جلن، سینے میں درد یا پیٹ درد وغیرہ کو، پھررہی سہی کسر نیم حکیموں اور اتائیوں نے پوری کردی ہے۔

(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر ہونے کے ساتھ جنرل فزیشن بھی ہیں اور انکل سریا اسپتال ،کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید