اگر آپ کی ملاقات کسی انیس بیس سال کے نوجوان سے ہو جوخواہ مخواہ ہر ایک سے خوش اخلاقی برتے ‘ویٹرز کو ضرورت سے زیادہ ٹپ دے‘اپنی اوقات سے مہنگے سگریٹ جیب میں رکھے ‘ ہر پانچ سکینڈ بعد اپنا موبائل فون نکال کر چیک کرے اور اپنی بہن کو سر پر دوپٹہ رکھنے کی تلقین کرے تو سمجھ لیں کہ وہ کسی کے عشق میں مبتلا ہے ۔
جس طرح عشق حقیقی کی مختلف منازل ہیں اسی طرح عشق مجازی کے بھی پانچ مراحل ہیں ‘اظہار ‘دکھاوا ‘عروج‘ حقیقت اور بریک اپ۔پہلے مرحلے میں محبوب سے اظہار محبت کیا جاتا ہے ‘اگر عاشق بزدل ہو تو عین ممکن ہے کہ اس سے پہلے اس کا رقیب اظہار کرکے بازی لے اڑے‘ اس صورت میں عاشق کے لئے بہترین آپشن یہ ہے کہ کسی چینل میں اینکر بھرتی ہو جائے اور صبح شام قوم کو اخلاقیات کا درس دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ اس سے زیادہ راست باز اور صالح شخص پورے ہند سندھ میں نہیں پایا جاتا‘اس کے ساتھ ہی اگر وہ ہول سیل ریٹ پر کوئی ’’نظریہ‘‘ خرید کرچھابہ لگا لے تو کیا کہنے ‘خدا ریٹنگ بھی دے گا اور ریٹ بھی بڑھائے گا۔تاہم اظہار محبت کا مسئلہ اس زمانے میں درپیش ہوتا تھا جب عاشق حضرات محبوب کے ٹانگے کو escortکرتے ہوئے اسے کالج تک چھوڑنے جایا کرتے تھے ‘اس زمانے میں موبائل فون جیسی نعمت بھی میسر نہیں تھی ‘لے دے کے ایک لینڈ لائن فون ہوا کرتا تھا جس کے ذریعے محبوب سے رابطہ کرنا ایسا ہی تھا جیسے آج کل طالبان کے ساتھ وایا بٹھنڈا رابطہ کیا جاتا ہے۔ آج کا نوجوان خوش قسمت ہے کہ اسے یہ مسائل درپیش نہیں‘ اب اسے ٹانگے کا پیچھا کرنے کی ضرورت ہے نہ محبوب کے چھوٹے بھائی کے نخرے اٹھانے کی ‘ اس کے پاس صرف محبوب کا موبائل نمبر ہو نا چاہئے جس کے ذریعے اظہار محبت اس قدر آسان ہو چکا ہے کہ دودھ پیتا بچہ بھی یہ کام کر سکتا ہے ۔کچھ نالائق قسم کے عاشق اظہار محبت کرتے ہی محبوب پر حق ملکیت جتانا شروع کر دیتے ہیں‘ اسے انگریزی میں possessiveہونا کہتے ہیں ‘اپنی اس حرکت کی وجہ سے ان عاشقوں کی قسمت میں ناکامی روز اوّل سے ہی لکھ دی جاتی ہے اور یوں اظہار کے پہلے مرحلے میں ہی یہ لوگ آئوٹ ہو جاتے ہیں ۔ اظہار محبت میں ایک بات کا خیال رکھنا از حدضروری ہے کہ محبوب کی تعریف ضرور کی جائے ‘مگر ضرورت سے زیادہ محبت کا فلسفہ بھگارنے سے اجتناب کیا جائے ‘کیونکہ محبوبائیں عموماً نارمل انداز میں کی گئیں نارمل باتیں پسند کرتی ہیں ،مثلاً ’’تمہارے بال بہت خوبصورت ہیں ‘کون سا شیمپو لگاتی ہو؟ تمہاری سکن کتنی صاف ہے ‘فیس واش استعمال کرتی ہو یا سکرب؟ تمہیں رنبیر کپور پسند ہے یا رنویر سنگھ؟ مجھے کترینہ کیف بالکل پسند نہیں ؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔اظہار محبت کرتے وقت بس ایسی ہی دوچار باتیں ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے ‘باقی ہمت مرداں مدد خدا۔
محبت کا دوسرا مرحلہ دکھاوے کا ہے‘اس سٹیج پرفریقین ایک دوسرے کو اپنے سٹیٹس سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نا دانستگی میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور یوں محبت کے تعلق میں جھوٹ کی آمیزش ہو جاتی ہے۔مثلاً اگر لڑکی کا بھائی سب انسپکٹر ہے تو وہ اسے ڈی ایس پی بتائے گی ‘لڑکے کے گھرکھانے میں اگر کدّو پکے ہوں تو وہ ایس ایم ایس کرے گا کہ I am having pizza‘لڑکی کو اگر اپنی امّی کے ساتھ کسی مرگ پرشاہ کوٹ جانا پڑ جائے تو وہ کہے گی بے بی میں فیملی کے ساتھ بھوربن جا رہی ہوں ‘لڑکا اگر لکشمی چوک میں بیٹھا سر کی مالش کروا رہا ہوگا تو کہے گا کہ میں گلبرگ کے سیلون میں ہیڈ میساج کروا رہا ہوں ‘لڑکی اگر محلے کے درزی سے کپڑے سلواتی ہوگی تو کہے گی کہ میں ہمیشہ فلاں برینڈ کے کپڑے پہنتی ہوں…!کبھی یہ دکھاوا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے تاکہ دوسرے فریق کو یہ تاثر دیا جائے کہ وہ ’’پینڈو‘‘ نہیں ہے ‘ اور کبھی اس خوف کی وجہ سے کیا جاتا ہے کہ کہیں محبوب کمتر سٹیٹس کی وجہ سے چھوڑ نہ جائے۔
تیسرا مرحلہ محبت کے عروج کا ہے ۔اس مرحلے میں عاشقی اپنے عروج میں داخل ہوتی ہے ‘فریقین ایک دوسرے کی سچی جھوٹی باتوں سے متاثر ہو چکے ہوتے ہیں اور کسی حد تک وہ ان مبالغہ آمیز باتوں سے بھی دستبردار ہو نا شروع ہو جاتے ہیں جو انہوں نے دوسرے مرحلے میں کی ہوتی ہیں ‘وجہ اس کی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہوا وہ اعتماد ہوتا ہے جو انہیںاس بات کا یقین دلاتا ہے کہ کم از کم اب کدّو کھانے کی وجہ سے محبوبہ چھوڑ کر نہیں جائے گی ۔اس مرحلے میں چھوٹے موٹے جھگڑے بھی ہوتے ہیں اور روٹھنا اور منانابھی چلتا رہتا ہے ‘ اس مرحلے میں جو خوشی موبائل فون پر روٹھے ہوئے محبوب کا میسج پڑھ کر ہوتی ہے کہ ’’ ہنی‘آئی ایم سوری‘‘ وہ خوشی کلچوں کے ساتھ سری پائے کا ناشتہ کرنے سے بھی حاصل نہیں ہوتی چاہے اس کے بعد لسّی کا گلاس ہی کیوںنہ چڑھا لیا جائے ۔ایک دوسرے پر حق ملکیت جتانے کا بھی یہی مناسب موقع ہوتا ہے جس سے فریقین کو ایک قسم کی تسلی ملتی ہے کہ ان کی محبت ’’سچی‘‘ ہے !
محبت کا چوتھا مرحلہ بہت دلچسپ ہے ‘یہ وہ مرحلہ ہے جب حقیقت آشکار ہوتی ہے ‘ فریقین چونکہ عروج سے گزر چکے ہوتے ہیں اس لئے اب وہ اپنے حلیے کی پروا کرتے ہیں نہ وضع قطع کی ‘وہ لڑکا جو ڈیٹ پر جانے سے پہلے دو دفعہ شیو کرکے اپنی تنخواہ کے برابر قیمت کا پرفیوم لگا تاتھا ‘اب محبوب سے ملتے وقت بالوں میں کنگھی کرنے کی زحمت بھی گواراہ نہیں کرتا۔اس مرحلے میں فریقین کو پتہ چلتا ہے کہ ان کا محبوب دوسرے انسانوں کی طرح ایک عام انسان ہے کوئی فلمی ہیرو نہیں جو ہر وقت بال ماتھے پر گرائے فکر معاش سے آزاد ہو کر گانے گاتا پھرے ‘وہ بیمار بھی ہوتا ہے ‘وہ کدّو بھی کھا تا ہے اور وہ گھر میں بنیان پہن کر بھی پھر تا ہے ۔کسی بھی محبوب کے لئے یہ حقائق تسلیم کرنا ایک مشکل کام ہے ‘لیکن جو لوگ اپنے تعلقات میں جھوٹ کی آمیزش کم سے کم رکھتے ہیں اور دوسرے مرحلے میں خواہ مخواہ کی ڈینگیں نہیں مارتے ان کے لئے اس چوتھے مرحلے سے گزرنا آسان ہو جاتا ہے ۔
پانچواں اور آخری مرحلہ بریک اپ یعنی ترک تعلقات کا ہے ‘اس کی دو قسمیں ہیں ‘ایک دائمی اور دوسرا عارضی ‘دائمی بریک اپ اس صورت میں ہوتا ہے اگر فریقین نے دوسرے مرحلے میں انتہائی درجے کی مبالغہ آرائی کی ہو یا ناقابل برداشت قسم کی بے وفائی ‘اس قسم کے بریک اپ میں رجوع کرنے کا چانس یوں تو بہت کم ہوتا ہے لیکن بہرحال امید پر دنیا قائم ہے۔عارضی بریک اپ شروع میں بظاہر دائمی لگتا ہے لیکن اگر جذبہ سچا ہو تو کچھ عرصے بعد صلح ہو جاتی ہے ‘تاہم یہاں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ‘ایک ‘بریک اپ کے وقت ایسی سخت باتیں نہ کی جائیں جن کی وجہ سے بعد میں صلح نا ممکن ہوجائے ‘دوسری‘صبر کیا جائے ‘بعض حالات میں یہ صبرخاصا طویل بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کے بعد جڑنے والے محبت پائیدار اور لا زوال ہو تی ہے ۔
نوٹ نمبر1:کچھ لوگ براہ راست تیسرے مرحلے میں چھلانگ مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور منہ کی کھاتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے پنجابی میں بہت برا لفظ ہے ۔
نوٹ نمبر 2:اس کالم سے اگر کسی ایک عاشق کا بھی بھلا ہو گیا تو بقول شفیق الرحمٰن ‘میں سمجھوں گا میری ساری محنت رائیگاں گئی۔