• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تضادستان میں جب بھی کسی سیاسی جماعت یا گروہ پر مشکل وقت آتا ہے تو اس کے اندر تقسیم یا گروپ بندی پیدا ہو جاتی ہے۔ آج کی سب سے ’’پاپولر‘‘ جماعت تحریک انصاف واضح طور پر تین گروپوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ پنجابی زبان میں ان گروپوں کو ہولے، پولے اور بھولے کہہ لیتے ہیں۔ یہ تینوں گروپ اندرونی طور پر منقسم بھی ہیں اور ان کے نقطہ ہائے نظر میں شدید اختلاف بھی پایا جاتا ہے، جوں جوں وقت آگے جائے گا یا سختیاں بڑھیں گی یہ گروہ بندی مضبوط ہوگی ۔ترمیم پر ووٹنگ کے درمیان تحریک انصاف کے اندر آرا کا یہ ٹکرائو واضح طور پر سامنے آسکتا ہے۔

پنجابی ہویا کوئی بھی صدیوں پرانی مستعمل زبان، اس کے الفاظ کے معانی بہت گہرے اور مطالب بھرے ہوتے ہیں کئی لفظ تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ دوسری زبانوں میں ان کا ہم معنیٰ یا ہم پلہ لفظ ہی نہیں ہوتا۔ آئیے ہولے، پولے اور بھولے کو سمجھنے کی کوشش کریں، ہولے کا اردو ترجمہ ہلکا ہوتا ہے انگریزی میں اس کا مفہومLIGHT WEIGHT ہو سکتا ہے لیکن پنجابی میں اس کا مطلب ان تراجم سے کہیں گہرا ہے۔ ہولا، کردار اور اعمال کے اعتبار سے کمزور اور ہلکے شخص کو کہا جاتا ہے کسی شخص کو کمزور کہنا ہو تو کہا جاتا ہے وہ تو ہولا ہے اس سے بڑی توقعات وابستہ نہ کریں۔ تحریک انصاف میں بھی دوسری جماعتوں کی طرح ہولے لوگ موجود ہیں، کچھ دبائو میں آکر پارٹی چھوڑ گئے کچھ چھوڑ جائیں گے تو کچھ اپنی پارٹی سے نالاں رہتے ہیں، ان میں نہ کردار کی مضبوطی ہوتی ہے نہ اپنے موقف پر کھڑے رہنے کی جرات۔ تحریک انصاف کے کئی حامی زبان کے تو بہت تیز ہیں سوشل میڈیا پر کشتوں کے پشتے لگا رہے ہوتے ہیں مگر جب مظاہرے کی کال دی جاتی ہےتو گھر سے ہی نہیں نکلتے یہ ہولے لوگ پارٹی کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں خود کچھ نہیں کرتے لیکن دوسروں پر ہر وقت تنقید کرتے رہتے ہیں، انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وفاداری تبدیل کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ہولے لوگ دراصل موقع پرست ہوتے ہیں ۔

سب سے دلچسپ گروہ پولے ہیں۔ پولا پنجابی کا ایسا لفظ ہے جس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا محال ہے بظاہر اس کا انگریزی ترجمہ SOFT ہے اور اردو میں اسے نرم کہا جاتا ہے مگر یہ تراجم پنجابی لفط پولا کا صحیح مفہوم ادا نہیں کرتے، پولا سمجھنے کیلئے آم چوسنے کے عمل کو یاد کرنا ہوگا آم چوسنے سے پہلے اسے ہاتھوں سے دبایا جاتا ہے تاکہ وہ نرم ہوجائے اور اسے چوسنے میں آسانی ہو آم کو نرم کرکے اسے چوسنے کیلئے تیار کرنے کے عمل کو پنجابی میں ’’پولا‘‘ کہتے ہیں۔ کافی عرصے سے تحریک انصاف مقتدرہ کا ہدف ہے اور اس کی قیادت سے لیکر اراکین اسمبلی تک کو ’’پولا‘‘ کیا جاچکا ہے۔ میرے علم میں یہ بات ہے کہ بہت سے پی ٹی آئی لیڈروں کے مقتدرہ اور ایک اہم ترین وفاقی وزیر سے براہ راست رابطے ہیں، مقتدرہ اور متذکرہ وزیر ان کے چھوٹے موٹے کام کر دیتے ہیں اور جواباً وہ لیڈرز ان سے پارٹی کے اندر اپنی مشکلات پر قابو پانے میں مدد لیتے ہیں۔ گنڈا پور کے رابطے تو اظہرمن الشمس ہیں، باقی بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہیں، مقتدرہ اور حکومت تحریک انصاف کے اندر اپنا کام دکھا چکے ہیں انہیں کس حد تک کامیابی ملی ہے یہ تو علم نہیں مگر اس سارے عمل کا نتیجہ ترمیم پر ووٹ کے وقت ظاہر ہو کر رہے گا ۔

تیسرا گروپ ’’بھولے ‘‘لوگوں پر مشتمل ہے پیپلز پارٹی میں اسی گروہ کو جیالے اور مسلم لیگ ن میں انہیں متوالے کہا جاتا ہے، بائیں بازو والے اپنے اس گروہ کو سرخا کہتے ہیں اور دائیں بازو والے انہیں جہادی قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی پارٹی سے وفادار ہوتے ہیں تحریک انصاف کے مخالف انہیں یوتھیا کہتے ہیں اور وہ خود کو انصافی اور عمرانی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔مقتدرہ ایسے لوگوں کو بھولا قرار دیتی ہے، اس کی نظر میں یہ لوگ بھولے بھٹکے ہوتے ہیں جھوٹے بیانیے کے اسیر ہیں اور جن لیڈروں کو انہوں نے دیوتا بنایا ہوا ہے وہ ناکارہ بت ہیں، اسی لئے ان وفاداروں کو بھولا سمجھا جاتا ہے اور مقتدرہ ان پر اپنا زیادہ وقت ضائع نہیں کرتی ،اس کا زیادہ زور ہولے اور پولے لوگوں پر ہوتا ہے اور انہی دو گروہوں میں اسے اکثر کامیابی بھی مل جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے معاملے میں ہولے اور پولے مقتدرہ سے دوستی گانٹھ چکے ہیں صرف بھولے ہی سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں کوئی پولا غائب ہو کر خفیہ شادی کرکے مزے میںہے اور کوئی دوسرا پولا یہاں معافی تلافی کروا کے باہر بیٹھا ڈالر کما رہا ہے خود محفوظ بیٹھا ہے اور لوگوں کو بھڑکا رہا ہے، کمائے گئے لاکھوں ڈالر کہاں لگائے مختلف لوگوں سے مشورے کر رہا ہے ۔کچھ ہولے اور پولے بظاہر بڑھکیں مارتے ہیں اندر جاکر بارہ ٹہنی کا کھیل کھیلتے ہیں۔

یادش بخیر جب 80ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور آئی جے آئی میں لڑائی زوروں پرتھی ،اس زمانے کی مقتدرہ آئی جے آئی کی حامی اور پیپلز پارٹی کی سخت مخالف تھی۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی گو اپوزیشن میں تھی مگر اس کے 100سے زیادہ اراکین تھے جو پنجاب حکومت کیلئے اسمبلی کی کارروائی چلانے کو مشکل بنائے رکھتے تھے۔ مجھے اس زمانے کے وزیر اعلیٰ نواز شریف کی انتہائی قریبی شخصیت نے اسی وقت بتایا تھا کہ ہم نے پنجاب اسمبلی میں موجود پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کو پیلے، سرمئی اور سرخ رنگوں میں تقسیم کررکھا ہے، ان رنگوں کا مطلب بالترتیب وہی ہولے، پولے اور بھولے تھا۔انہوں نے مجھ پر انکشاف کیا تھا کہ ہم پندرہ بیس اراکین اسمبلی کو پولا کر چکے ہیں، میں نے استفسار کیا کہ کیسے ؟تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر ایک رکن پر تحقیق کی ہے اگر کوئی کشمیری ہے تو ہم نے اس سے کشمیری کنکشن بنا لیا ہے، کوئی جاٹ ہے تو اپنے وفادار جاٹ کو اس کے پیچھے لگا کر اسے پولا کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ لوگ ہم پر سخت تنقید نہیں کرتے ہم بھی خفیہ طور پر ان کے کام کرتے رہتے ہیں ۔ آج کی تحریک انصاف کے ہولوں، پولوں اور بھولوں کو دیکھتا ہوں تو 34سال پہلے کی مقتدرہ اور اس کے بغل بچہ اسلامی جمہوری اتحاد کی حکمت عملی یاد آ جاتی ہے آج بھی وہی حکمت عملی جاری و ساری ہے بس حسا ب یہ ہونا ہے کہ کتنے ہولے، کتنے پولے اور کتنے بھولے ہیں ؟

جس صورتحال سے تحریک انصاف گزر رہی ہے اس سے پیپلز پارٹی بھی گزری ،اس کے بڑے لیڈر مقتدرہ سے درپردہ ملے ہوئے تھے نون پر افتاد آئی جب بھی یہی حال تھا ،ایک نئی بات البتہ بقول ’’بلھے‘‘ شاہ صرف تحریک انصاف میں خاص ہے ۔

اُلٹے ہور زمانے آئے

سچیاں نوں پے ملدے دھکے جھوٹے کول بہائے

افسوس یہ ہے کہ بھولوں کی کوئی نہیں سن رہا،وہ سچے ہیں اس لئے پارٹی جھوٹوں کی یرغمالی ہے ،جو سوشل میڈیا کے ذریعے پارٹی کو بلیک میل کر رہے ہیں، فوج سے لڑوا رہے ہیں، خود پیسے کما رہے ہیں اور عمران خان کو جیل میں رکھنے کا بندوبست کر رہے ہیں ۔

تازہ ترین