آئینی ترامیم ،کوچہ سیاست میں گہما گہمی
خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس ایک آئین ہے جس کے گرد بازار سیاست کی ان دنوں خوب رونقیں لگی ہوئی ہیں،۔ مولانا کے گرد بھی طواف کا منظر ہے اب تو وہ سیاست کے مہان گرو سمجھے جاتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ سیاسی کلاس کی نہایت چابکدستی سے مانیٹرنگ کر رہے ہیں ورنہ حکومت اور اس کے اتحادی تو آئینی دھماکہ کرنے کے عین قریب تھے کہ مولانا فضل الرحمان نے ساری بساط ہی الٹ دی اور باور کرا دیا کہ آئینی ترامیم کا حکومتی مسودہ یوں راتوں رات منظور کرانا ممکن نہیں ۔ا ب کئی مختلف مسودات ہیں اور مولانا کی سیاسی سوجھ بوجھ ہے کہ ابھی تک مکمل مطلوبہ اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ مولانا لیلائے سیاست کی الجھی زلف سلجھانے میں مگن ہیں وہ اونٹ پر ہیں اور اونٹ ہے کہ کسی کروٹ بیٹھتا ہی نہیں۔ بہرحال ملک میں سیاسی عدم استحکام کئی دیگر شعبوں پر اثرانداز ہو رہا ہے عوام الناس کو سیاسی دنگل سے کوئی دلچسپی نہیں وہ تو روز افزوں مہنگائی سے دامن چھڑانے کی خواہش میں اپنے مطلب کی خبر ڈھونڈتے ہیں ا ب تک تو ایک ہی آواز آ رہی ہے کہ بس اتفاق رائے کے بالکل قریب ہیں اتفاق رائے ہوا چاہتا ہے ہوا نہیں، عدلیہ کی نچلی منزل میں کیسز کے انبار لگے ہوئے ہیں ان کی کوئی فکر نہیں نہ جانے اعلیٰ عدلیہ سے حکومت کو اتنا لگائو کیوں ہیں ؟ اب تو یہی دعا ہے کہ آئینی ترامیم کا مخمصہ حل ہو تاکہ حکومت حق حکمرانی یکسوئی سے ادا کرے اور کاغذی اعدادوشمار مارکیٹوں میں اپنی عملی شکل میں نظر آئیں نرخ اوپر جاتے ہیں نیچے نہیں آتے، عام اشیائے خورونوش نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے ہر کام میں نام عوام کا اور کام اپنی پالیسی چل رہی ہے عوامی مفادات کی ہنوز کسی کو کوئی فکر نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے مگر کیا انتہائی ضرورت کے پیش نظر قانون سازی ہوتی ہے یا اپنی مرضی کیلئے ملک کو سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔پارلیمنٹ عوامی مشکلات کے حل کیلئے بھی کچھ کرتی ہے یا 25کروڑ عوام کی پرامید آنکھوں میں جھانکنے کی زحمت بھی کرتی ہے کیا ان ترامیم سے مسئلہ نمبر 1 یعنی مہنگائی کم ہو جائیگی اور عام آدمی کو محسوس ہو گا کہ کاغذ پر نظر آنے والی اصلاحات عملاً بھی نافذ ہو نگی۔ اس وقت بیروزگاری عام ہے کیا پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں کوئی عوامی فائدے کابل بھی منظور کرایا ہے یا نہیں، خدا کرے کہ آئینی ترامیم کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے اور پارلیمنٹ جو عوام کی امنگوں کی ترجمان ہے اسکے حوالے سے بھی کوئی عوامی بھلائی کا پیکیج لاتی ہے یا نہیں ۔امیدیں ڈوب رہی ہیں ارکان پارلیمنٹ کس سمت چل نکلے ہیں انہیں جس بنیادی کام کیلئے منتخب کیا گیا اس کو انجام تک پہنچانے کا عمل کب شروع ہو گا۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
غزہ سے لبنان اور وہاں سے نہ جانے کہاں تک
بنجمن نیتن یاہو کا تازہ بیان کہ انہوں نے ایران پر حملے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم خون مسلم پینے سے ابھی تک سیر نہیں ہوئے غزہ مسلم نسل کشی لبنان تک پہنچ گئی اور اب یہ کہ ایران پر حملے کا فیصلہ کر لیا گیا اگر اسرائیل کو امریکی حمایت حاصل نہ ہوتی تو آج جنگ کا نقشہ کچھ اور ہوتا ،نیتن یاہو کو معلوم ہے کہ جنگ تھم گئی تو ان کا اپنے ہی ملک میں ٹھکانہ ناممکن ہو جائے گا اس لئے وہ گریٹر اسرائیل کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں افسوس کہ اسلامی ممالک نے کوئی اجتماعی ردعمل نہیں دیا ورنہ اس بیدردی سے مسلمانوں کا غزہ سے لبنان تک قتل عام نہ ہوتا، ایک ایک کرکے ہر مسلم ملک جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا ہے، او آئی سی نے بھی کو ئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا۔ اسرائیل کی قیادت کو تسلی ہے کہ مسلم ملکوں میں اتحاد نہیں اس لئے وہ چڑھا چلا آ رہا ہے اب تک لگ بھگ 50ہزار فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد لبنان میں خون ریزی شروع کر دی ہے اگر اس جنگ نے ایران کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو اس کا پھیلائو رکے گا نہیں عالم اسلام کی کمزوری ہے کہ وہ کوئی ایسا اجتماعی قدم نہیں اٹھا رہے جس سے اسرائیل جنگ بندی پر مجبور ہو جائے معاشی بائیکاٹ اگر تمام مسلم امہ کرنے پر تل جائے تو اسرائیل بیک فٹ پر چلا جائے گا مگر ہنوز مسلم امہ آنے والے طوفان کی وسیع تر تباہ کاریوں سے غافل ہے بعض اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے اور وہ اسرائیل کے خلاف محض بیان دیتے ہیں او آئی سی کو چاہئے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والی مسلم ریاستوں کو سفارتی تعلق ختم کرنے پر آمادہ کرے اگر مسلم دنیا نے اسی طرح خاموش تماشائی کا روپ دھارے رکھا تو وہ یہودونصاریٰ کے منفی عزائم سے محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ اب تک کسی ایک اسلامی ملک نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا، یہ جنگ مختصر نہیں بلکہ اس کا دائرہ پھیل رہا ہے عرب ریاستیں بالخصوص فلسطینیوں اور لبنانیوں کی نسل کشی پر خاموش نہ رہیں بصورت دیگر یہود اور یہود نواز قوتیں اسلامی دنیا کو چین سے نہیں بیٹھنے دینگی وزیر اعظم پاکستان نے جس جرات کا مظاہر ہ جنرل اسمبلی میں کیا ان کی پیروی دوسری اسلامی مملکتیں بھی کریں ۔اگر صہیونی یلغار کے آگے بند نہ باندھا گیا تو کل کلاں کوئی بھی مسلم ریاست یہودونصاریٰ کی دیدہ دلیری سے محفوظ نہ رہ سکے گی اور اگر مسلم امہ نے صہیونیت کا راستہ روک لیا تو پھر وہی ہوگا جو قرآن نے کہا ہے کہ ’’یہود کہیں گے نصاریٰ کچھ بھی نہیں ’’ اور نصاریٰ کہیں گےیہود کچھ بھی نہیں ‘‘
٭٭ ٭ ٭ ٭
اندر باہر
٭فضل الرحمان :جاتی امراء میں بڑی بیٹھک اتفاق رائے کی طرف بڑھ رہے ہیں ہماری تجاویز مان لیں تو بسم اللہ۔
٭ترامیم ترامیم میں مولانا نے بڑھے اچھے شاٹ کھیلے ان کی مان لی جائے تو ست بسم اللہ ۔
٭جے شنکر آئے چلے گئے ،
مگر ہمیں امید دے گئے کہ شاید تعلقات خوشگوار ہو جائیں۔
ہمیں کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
٭عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کی دوڑ سے باہر اس لئے باہر ہوئے کہ وہ اندر ہیں۔
٭٭ ٭ ٭ ٭