بادشاہی مسجد میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اسلام کی وہ قابل قدر تصویر اور تفہیم پیش کی کہ سننے والے عش عش کر اٹھے۔ 12 اکتوبر کو خطاب ، چند سوالات و جوابات اور 13 اکتوبر کو صرف سوال وجواب کی نشست میں انکی خطابت کے اسٹائل سے انکی جرات اور کھرا پن نمایاں تھا۔ اس لیے انہوں نے ابتدائی کلمات سے ہی مجھ سمیت مسجد کے وسیع وعریض کھچا کھچ بھرے پورے صحن کو ہی مسحور کر لیا۔ اس مجمع میں ہر طرح کے افراد موجود تھے۔ دونوں دن ڈی سی، کمشنر، صوبائی سیکریٹریز کے علاوہ صوبائی وزیر خواجہ سلمان رفیق اختتام تک موجود رہے۔ پہلے دن ڈاکٹر صاحب نے تقریباً دو گھنٹے ’’قرآن عالمی ضرورت‘‘ کے عنوان سے خطاب کیا۔ اسکے بعد تقریباً ایک گھنٹہ سوال وجواب پر مبنی سیشن ہوا۔ ذاکر نائیک گویا ہوئے ’’ماضی کے پیغمبر ایک گروہ اور
ایک وقت کیلئے آئے مگر چونکہ محمد ﷺ آخری پیغمبر ہیں اس لیے وہ پوری دنیا اور ہمیشہ کیلئے آئے۔ عورتوں کو پردے کا حکم ہے تو عورتوں سے متعلق آیت سے پہلے سورہ نور، آیت نمبر 30میں مردوں کو اپنی نظر کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔انہوں نے بہت لوگوں کی ایک بہت بڑی غلط فہمی بھی دور کر دی کہ گلے کی ٹائی کسی صورت میں بھی صلیب کا نشان نہیں۔ ڈاکٹر ذاکر اور انکا بیٹا فاروق دونوں دن کوٹ، ٹائی اور پتلون میں ملبوس تھے۔ اس لیے جو مغربی قوتیں مدرسوں کے فارغ التحصیل مولویوں سے خوف زدہ ہیں وہ جدید لباس کے حامی ذاکر نائیک کو برداشت کریں اور اسلام کے مثبت پیغام کے پھیلاؤ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ ذاکر نائیک نے واضح کیا کہ دوسروں کی بیٹیوں کو بیٹی اور بیٹا کہنا نہایت ہی اچھی بات ہے۔ مگر اسلام میں 14،15 سالہ بچیوں کو نامحرم مرد کا چھونا بھی سختی سے منع ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ قرآن پاک میں انفرادی، اجتماعی اور سیاسی مسائل کا حل موجود ہے اور پر زور تاکید کی کہ قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھا جائے تاکہ اس پر عمل کیا جا سکے۔ شاید انکی پاپولیرٹی کی بنیادی وجوہات یہی ہے کہ اپنے اجتماعات میں سوالوں کے ذریعے عوام کیParticipation یقینی بناتے ہیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اور خود عمل کرکے اپنے آپ کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں زمرد خان کے یتیم خانے میں 16 سالہ لڑکیوں سے دور رہ کر انہوں نے اسلام پر خود عمل کرنے کا ٹھوس ثبوت مہیا کیا۔ پہلے روز ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطاب کے اختتام پر 4 سوالوں کے جواب تفصیل سے دیئے۔ میرا سوال تھا کہ انگلینڈ میں میرے طویل قیام کے دوران غیر مسلم انگریز اسلام کے بارے ایک اعتراض یہ کرتے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہزاروں سال سے آسمان پر زندہ ہیں اور انکے فانی جسم کی ضروریات بھی پوری ہو رہی ہیں؟ انہوں نےفرمایا ’’اللہ کے تمام پیغمبروں میں سے حضرت عیسیٰ واحد پیغمبر تھے جن کے پیرو کاروں کو غلط فہمی ہوئی کہ انہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے۔ اس لیے خدا نے انہیں زندہ اوپر اٹھا لیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے واپس روئے زمین پر آئیں گے اور بتائیں گے کہ میں تو خدا نہیں بلکہ انسان ہوں۔ جس رب العالمین نے حضرت عیسیٰ کو مردے زندہ کرنے کی طاقت ودیعت کی وہ ہزاروں سال تک زندہ بھی رکھ سکتا ہے۔ یہ خدا وند کریم کا معجزہ ہے جو سائنس اور منطق کی وضاحت سے اوپر ہوتا ہے‘‘۔
دوسرے روز ڈاکٹر صاحب پونے چار گھنٹے سوالوں کے جوابات دیتے رہے۔ ایک عیسائی پادری کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے انجیل سے 6 Specific حوالے زبانی دیئے کہ حضرت عیسیٰ نے جو کچھ بھی کیا اللہ کی مدد سے کیا۔ انہوں نے قرآن پاک کا حوالہ دیا کہ مردے زندہ کرتے وقت حضرت عیسیٰ کہتے تھے ’’قم بااذن اللہ‘‘ (اٹھو حکم اللہ سے)۔ ذاکر نائیک نے قرآن اور عیسائیوں کی انجیل سے درست حوالے دیکر ثابت کر دیا کہ حضرت عیسیٰ نے کبھی خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور اپنی عبادت کا بھی کبھی نہیں کہا۔ ان پادری صاحب کی طرح تقریباً 10عیسائی حضرات سوالات لے کر آئے مگر لاجواب ہو کر خاموش ہوتے گئے۔ ایک عیسائی نوجوان سے صرف 2 گز دور کھڑے ہو کر اسلام مخالف سوالات شروع کیے، آہستہ آہستہ نرم ہوتا گیا اور آخر میں مسلمان ہونے کو تیار ہو گیا۔ نتیجتاً ذاکر نائیک نے اسے کلمہ شہادت پڑھا دیا۔
قصور کے ایک سکول کی پرنسپل نے اپنی زندگی کی پوری کمائی ذاکر نائیک کے’’پیس ٹی وی‘‘ کو دینے کا اعلان کیا۔ پاکستانیوں کی بے پناہ محبت دیکھ کر انہوں نے پاکستان کے ہر بڑے شہر میں اسلامک یونیورسٹی بنانے کا اعلان کردیا۔ ساتھ ہی انڈیا میں قائم اپنے انٹرنیشنل اسلامک سسٹم آف سکولز کے بارے بتایا کہ تعلیم عربی اور انگریزی میں دی جاتی ہے جبکہ بائبل پڑھنا، ٹائی کونڈو اور تیراکی جیسی علم وسیع کرنے والی اور کیریکٹر بلڈنگ مصروفیات لازمی ہیں۔ ان سکولوں سے ٹاپ کلاس فارغ التحصیل طلبہ دین کی تبلیغ اور درس و تدریس میں لگ جانے کیلئے سعودی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے درجے کے طلبہ انجینئرنگ، میڈیکل اور دیگر پروفیشنز میں جاتے ہیں۔ پروگرام مشتہر وقت سے بہت دیر بعد شروع ہوا جس کی ذمّہ دار مقامی انتظامیہ تھی۔ سوالات کی فلٹریشن کا انتظام بھی بہت ناقص تھا۔ مسجد کے صحن میں مختلف جگہ پر رکھے گئے 4مائیکرو فون کا انچارج ایک نوجوانوں کو بنایا گیا تھا جسکی ججمنٹ نہ ہونے کے برابر تھی نتیجتاً انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ، تجربہ کار ، بابصیرت حضرات مائیک سے دور ہوتے چلے گئے اور انتہائی معمولی تعلیم و سوجھ بوجھ والے نوجوان گھسے پٹے سوالات کرتے رہے۔ مثلاً کیمبرج یونیورسٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، لندن یونیورسٹی کے ایک سابق ٹیچر کو ایک علمی سوال کرنے سے ٹال کر ایک 19 سالہ نوجوان کے حوالے مائیک کیا گیا۔ جس نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ انہوں نے ایک غیر مسلم آدمی کو I love you کیوں کہا؟ یہ مضحکہ خیز سوال سن کر سارے کا سارا مجمع حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔ تاہم ڈاکٹر صاحب اگر جامعیت کی پالیسی پر عمل کریں تو جتنا وقت وہ ایک سوال پرصرف کرتے ہیں اتنی دیر میں باآسانی 3سوالات کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ خامیاں دور ہو جائیں تو ایک ایسی عظیم شخصیت جو کسی ایک مسلک کی حمایت کرنے کی بجائے پورے اسلام کی علمبردار ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے اتحاد کی علامت بن سکتی ہے۔