• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علمبردارانِ لندنی میثاق جمہوریت،جناب آصف زرداری، میاں نواز شریف صاحب، شہباز حکومت و اکابرجمعیت علماء اسلام (ف) و ایم کیو ایم ؟ہماری خیر آپ سلامت رہیں، آپ سب کو بالآخر بزور آئین پاکستان میں 26ویں ترمیم کی انہونی کی منظوری کی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک کہ آپ ہی تو محافظ آئین و جمہوریت اور 25کروڑ پاکستانیوں کے حقیقی خیر خواہ ہیں جنہوں نے آئی پی پیز کے معاہدوں سے ہمیں اندھیروں سے نکالا ’’جلنے والوں کا منہ کالا‘‘۔ اپوزیشن کا تو کام ہی تقدس مآب پارلیمان کی جمہوری سیاسی رونقوں کو استعفوں اور بار بار بائیکاٹ سے ویران اور ووٹروں کو پریشان کرنا رہ گیا ہے ،یہ یوتھیے اور انکی جیل پڑی قیادت کیا جانے کہ مفاہمت اور سیاسی عملیت کیا ہوتی ہے مستقبل پاکستان کے آسمان سیاست پر چمکتے ستارے برخوردار بلاول بھٹو کو خصوصی شاباش کہ انہوں نے جس طرح پاپا سے اسٹیٹس کو (مسلط نظام بد) پالیٹکس کے پیچ وخم سمجھ کر سیاسی اکھاڑے میں 8فروری اور فارم 47،پارلیمان و حکومت کی رٹ لگانے والی قوت اخوت عوام کی حامل دعویدار پی ٹی آئی کو چاروں شانے چت کیا ہے وہ آپ جیسے شباب پاکستان ہی کا دم خم تھا، ہم آپ کی ٹی وی سکرین پر سینہ تانے مولانا صاحب کے سیاسی دربار میں مودب حاضریوں کے نظارے دیکھ کر حوصلہ پاتے رہے کہ کچھ ’’بڑا‘‘ ہونے والا ہے ان سیاسی چکر پھیروں میں کبھی آپ کی ہوائیاں اڑی ہوتیں تو کبھی باچھیں کھلی ہوتیں، ظاہر ہے یہ ایک انہونی سی پارلیمانی مہم جوئی ہی تو تھی جسے بلاول تم نے سیاسی گرو پاپا کی سیاسی کوچنگ سے اتنی کامیابی سےمکمل کیا کہ کتنے ہی ریکارڈ بن گئے، ذرا وڈیو دیکھو اور بار بار دیکھو تم نے جب حکومتی من مرضی سے عدلیہ کی اصلاح کا یہ محال معرکہ مار کر مولانا صاحب کے ساتھ آخری پریس کانفرنس کی تو ذرا دیکھو تمہاری شادمانی، مولانا کی اداسی اور مجبوری وبے بسی سے بڑھ کر نہیں تو برابر ضرور تھی، کیوں نہ ہوتی پاپا نے اتنا تو سمجھایا ہوگا کہ سیاسی فتح کتنی بھی بڑی ہو مولانا کے آگے ایک قدم بھی نہ بڑھانا ایک دو قوم پیچھے ہی رہنا ،برابر تو یوں ہو گئے کہ حصول وزارت عظمیٰ کا اشارہ بھی تو خواص و عوام کو دینا بڑی سیاسی ضرورت تھی ۔واہ بلاول وا ہ پی ٹی آئی اور اس کی فارم45والی قوت ِعوام ٹھاہ قاضی سکندر واہ! اب ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کو ایسے ہی ڈراتے اور دھمکاتے رہنا کہ یہی عوامی ترقی کیلئے سیاسی استحکام کو یقینی بنانے مٹانے کا تقاضہ ہے اسی سیاسی پارٹی سے تو 26ویں ترمیم جو بقول ن لیگی انکلوں کی تشریح و وضاحت کہ یہ لندنی میثاق جمہوریت کے ادھورے ایجنڈے کی تکمیل ہے 18ویں ترمیم تو خود کو منظور کرانے میں 18ماہ لے گئی تھی اور منظوری پر بھی ادھوری رہی حالانکہ وہ تو جمہوریت کے طویل کیا مسلسل ٹریک پر بلارکاوٹ چلنے کا ن لیگ کے ساتھ مل کر عہدوپیماں تھا، الگ ہے پاپا نے وقتی سیاسی ضرورت کے تحت’ یہ کوئی آسمانی صحیفہ تو نہیں ‘کہہ کر بنتی رکاوٹ میثاق جمہوریت کی راہ سے ہٹا دی تھی وکیلوں کا دماغ گرم کا گرم ہی نہ رہتا اور میاں نواز شریف اس وقت اپنی سیاست نہ کرتے تو پھر دیکھتے مشرف کی گھڑی گئیں پی سی او کورٹس کیسے منہدم ہوتیں ہم اس ٹیلر میڈ عدلیہ سے وہ کام لیتے جو اب ہم اس فاتح پارلیمان اور اس سے نکلی جو ڈیشل کانسٹی ٹیوشنل بینچ سے ’’عوام دوست ‘‘ سیاست کیلئے لیں گے ۔

اور ہاں بلاول چاند سنو تم نے جو اپنی ہمت ،پختہ ارادے اور گمراہ وگستاخ سوشل میڈیا سے جلی کٹی اوئے توئے پر آنکھیں کان بند کرتے جس طرح ایسے سیاسی تجزیوں اور نام نہاد رائے عامہ کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اصلاح عدلیہ کا ’’چن چڑھایا‘‘ ہے اس پر شہباز حکومت تمہارے شانہ بشانہ تھی اور ہے دونوں نے مل کر یہ کار عظیم انجام دیا ہے ،حوصلہ قائم رکھو تم سے بڑھ کر ن لیگی گھاگ انکلز کے بھاگ تمہارے ساتھ ہیں جو کام اپنی صفوں میں بے وفائی بڑھنے کے ڈرسے حکومت اور ن لیگ نہیں کر سکتی تھی وہ تم ببانگ دہل کر گزرے۔ہاں! ہوشیار رہنا جو وہ کر سکتے ہیںتم آسانی سے نہ کر پائو گے تمہاری فیوچر کی وزارت عظمیٰ میں سب سے بڑی رکاوٹ پی ٹی آئی تو جانے بنے یا نہ بنے یہی ن لیگی نتیجہ خیز ہوئی پارٹنر شپ نہ بن جائے، ہدف تمہارا ہی نہیں اور بھی کوئی اس پارٹنر شپ میں تم سے بڑھ کر شوقین وزات ِعظمیٰ ،کون ؟تمہیں ابھی پوری سمجھ نہیں تو اس کی بھی کوئی فکر نہیں پاپا اگلا راستہ دکھا دیں گے ،کہاں رکاوٹیں ،کہاں راہ ہموار اور ہاں یہ جو 2007ء والی وکلا تحریک کے بعد اصلی جمہوری دور شروع ہونے کے امکانات اسٹیٹس کو کیلئے خطرہ بن گئے تھے جس میں وکلا کے دماغ عدلیہ کی صفائی کیلئے گرم کے گرم ہی تھے اور بڑے میاں صاحب نےاپنی سیاسی راہ لی تھی ان دو رکاوٹوں میں سے اب ایک ہی رہ گئی لیکن تمہاری اگلی منزل کیلئے دو ہی رہیں گی البتہ وکلا سے ڈرنےورنےکی ضرورت نہیں بڑا اور اصل کام قاضی صاحب پہلے ہی کر گئے ، بار و بینچ دونوں ہی تقسیم۔ وکلا کے ہوا نے کچھ کرنا ہوتا تو سامان دلائل و منطق بہت تھا کر گزرتے، وکلا تحریک میں ان کا دماغ جتنا گرم تھا اب اتنا ہی سرد ہے آپ کے کیمپ کی دھونس دھمکیاں جتنی بھی ناقدین کی طرف سے قابل مذمت اور وزنی ہوں کچھ نہ بگاڑ سکیں ،ہاں پی ٹی آئی کے احتجاج یوتھیوں اور انکے مقبوضہ گستاخ سوشل میڈیا سے احتجاج ،دلائل و منطق کا ایک طوفان اٹھے گا اتنا کہ بلاول شاید تم کان دونوں ہاتھوںسےدبا کر زور سے بھی بند کرو گے تو پھر بھی کچھ شور سنائی دے گا آنکھوں پر جتنی کس کے پٹی باندھو گے شاید کچھ پھر بھی نظر آئے اس سے گھبرانا نہیں تمہارے پاس کوئی دبانے، ڈرانے کے سامان کی کوئی کمی نہیں۔مولانا صاحب کوسانپ، اژدھے دکھا کر تم انہیں راہ پرلے ہی آئے بس لندنی میثاق جمہوریت کا دامن پکڑے رہنا ن لیگ کی فکر نہیں وہ تم سے زیادہ مضبوطی سے تھامے رکھےگی۔ یاد رکھنا ،یہ میثاق جمہوریت ہی کا حسن وجمال ہے جس نے خلوت کے بغیر ہر دو پارٹنرز کو وصال کے مزے دیئے ہیں اسے تھام کے رکھنا اب اسکے بہت دشمن پہلے اس کی چمک سے مخالفت نہیں کرتےتھے خاموش رہتے تھے،دونوں پارٹنر ز نے اس کی اپنی ہی من مانی تشریح اور پھر سیاسی کھلواڑ سے کیا کچھ حاصل کرلیا کہ آج مولانا صاحب پھر ہمنوا و ہمرکاب ہیں ۔بار بینچ ویسے فارغ فکر نہ فاقہ ۔

ہاں!ایک اور بڑی رکاوٹ تخیلات کی دنیا میں رہنے والے آئیڈئلسٹ ،بڑی بڑی کتابیں، حوالے ،گڈ گورننس کی حسین مثالیں دلائل کے دلیےکی دیگیں کھول کر حکومت پی ڈی ایم ،پی پی چھوٹے موٹے اتحادیوں اور ان کی بنیاد اسٹیٹس کو (نظام بد) پر بڑی تیاری سے حملہ آور ہوں گے لیکن اس علمی قلمی کتابی جنگ سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں کائونٹر کرنے کیلئے وزارتی پریس کانفرنسز کی رفتار تیز کرنا ہے اور ن لیگی چرب زبانوں کوساتھ جوڑے رکھنا یوں تو ان کی بھی اپنی بڑی ضرورت ہے یہ خالی خولی تخیلات کی دنیا میںرہنے والے شیخ چلیوں کا سارا زور قوت اخوت عوام کے حوالےسے ہی ہوگا یہ قوت بس 8فروری کو اپنا رنگ دکھا چکی جودکھانا تھا لیکن مہنگائی، بیروز گاری بڑھتی غربت بولنے لکھنے پر پابندیوں کے ’’سانپوں‘‘ سے بچ کر رہنا کہ ان میں کوئی طاقت نہ آ جائے ’’مبارک ہو سلامت رہو ‘‘ مصلحین، عدلیہ بذریعہ کھلواڑ و بگاڑ۔

تازہ ترین