پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پی پی پی نے پاکستان میں جمہوری اصولوں کو مضبوط کرنے کی شروعات کی، جہاں عوام کو اپنی آواز بلند کرنے اور اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع ملا۔ لیکن اس راہ میں پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر فوجی آمریت کے دور میں۔
ذوالفقار علی بھٹو کو 1977ءمیں جبری طور پر اقتدار سے ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ پی پی پی کے کارکنان اور قیادت کو جیلوں میں ڈالا گیا، ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئےاور یہاں تک کہ بھٹو کو پھانسی دے کر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے سیاہ باب رقم کیا گیا۔ تاہم پیپلز پارٹی کی جدوجہد یہاں ختم نہ ہوئی۔
بی بی شہید بینظیر بھٹو نے اپنے والد کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے جمہوریت کی بحالی کے لئے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کی۔ ان کے دور میں بھی آمریت نے بارہا کوشش کی کہ جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا جائے، لیکن بینظیر بھٹو نے ثابت قدمی اور بہادری سے مقابلہ کیا۔ انہوں نے عوامی حقوق کی بحالی اور ایک آئینی حکومتی ڈھانچے کے قیام کیلئے جدوجہد کی۔ آمریت کے سائے میں ان کی جلاوطنی اور سیاسی مزاحمت ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح پی پی پی نے پاکستان کی جمہوریت کو بچانے کیلئے اپنی جان تک داؤ پر لگا دی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی پی پی پی کو ایک بار پھر جمہوریت کیلئے سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن پی پی پی نے کبھی ہار نہ مانی اور اپنی قیادت کی دانشمندی سے ملک میں سیاسی مفاہمت کے ذریعے جمہوری اصولوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ بینظیر بھٹو کی شہادت نے پوری قوم کو غم زدہ کر دیا، لیکن ان کے بعد بھی پی پی پی نے جمہوری عمل کو آگے بڑھایا اور آصف علی زرداری نے مفاہمت کی سیاست کے ذریعے 2008ءمیں جمہوریت کو ایک نیا رنگ دیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی قربانیوں کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پارٹی نے نوجوانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور جمہوریت کو مزید مضبوط کرنے کا عزم کیا ہے۔ بلاول بھٹو نے اپنی والدہ اور نانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیشہ آئین کی بالادستی اور عوامی حق حکمرانی کی بات کی ہے۔ آج جب دنیا بھر میں جمہوریت کو چیلنجز درپیش ہیں، پیپلز پارٹی پاکستان میں جمہوریت کو محفوظ رکھنے اور اسے فروغ دینے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ کردار نہ صرف پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے بلکہ جمہوری نظام کو مستحکم کرنے میں اس کی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے آمروں کے خلاف ڈٹ جانے اور جمہوریت کی بحالی کیلئے اپنی جانوں کی قربانی دینے والے پی پی پی کے کارکنان اور قائدین کا عزم کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ملک میں جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوا، پیپلز پارٹی نے اپنی قیادت کے تحت اس خطرے کا بھرپور مقابلہ کیا اور عوام کے حق حکمرانی کو بحال کرنےکیلئے ہر قسم کی قربانی دی۔پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوریت کیلئے جدوجہد نہ صرف ایک سیاسی تحریک تھی، بلکہ یہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ایک مشن بھی تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘کے نعرے نے غریب عوام کے دلوں میں امید پیدا کی، اور یہ وعدہ کیا گیا کہ ریاست ان کی بنیادی ضروریات پوری کرے گی۔ بھٹو کے دور میں مزدوروں، کسانوں اور محنت کش طبقے کے حقوق کےکیلئے اہم اصلاحات کی گئیں، جنہوں نے ملک کے محروم طبقے کو بااختیار بنانے کی راہ ہموار کی۔ لیکن ضیاء الحق کی آمریت نے ان تمام اصلاحات کو جمہوریت کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کی۔
ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران پی پی پی نے ملک بھر میں مزاحمت کے نئے باب رقم کیے۔ سیاسی کارکنوں نے کوڑے کھائے، جیلوں کی صعوبتیں برداشت کیں اور یہاں تک کہ پھانسیاں بھی قبول کیں، لیکن جمہوریت کیلئے ان کی جدوجہد کبھی کم نہ ہوئی۔ ضیاء کے ظلم و ستم کے باوجود، پی پی پی نے عوام کے حقوق کیلئے اپنی جنگ جاری رکھی۔جنرل مشرف کے دور میں بھی پی پی پی نے سیاسی جدوجہد کو ترک نہ کیا۔ بینظیر بھٹو کی جلاوطنی اور پھر واپسی کے بعد ان کی جان لیوا حملے میں شہادت نے نہ صرف ملک بلکہ دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کی شہادت نے پی پی پی کی قیادت کو مزید مضبوط کیا اور عوام میں جمہوریت کیلئے ایک نئی لہر پیدا کی۔آج بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے اپنی سابقہ روایات کو زندہ رکھا ہے۔ وہ نوجوانوں کو جمہوریت کی اہمیت سے آگاہ کر رہے ہیں اور ایک متحرک اور مستحکم جمہوری نظام کے قیام کیلئے کوشاں ہیں۔ پی پی پی کی اس طویل جدوجہد کی بدولت پاکستان میں جمہوریت کو جو استحکام ملا ہے، وہ آئندہ نسلوں کیلئے مشعل راہ ہے۔