• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں موسم سخت اور بے رحم ہے ،گرمی اور حبس نے بےبس کررکھا ہے۔ جب کبھی بادل آتے ہیں اور برستے ہیں تو بھی موسم کا مزاج گرم ہی لگتا ہے۔ بجلی کی کمی نے لوگوں کی برداشت بھی کم کردی ہے پھر موسم کی طرح ملک کی سیاست بھی بہت ہی گرم ہوتی نظر آرہی ہے۔ پہلے دھرنوں کی دھمکی ملی اور اب لانگ مارچ کے ذریعے ملک کی سیاست کو نیا رخ دینے کی بات ہورہی ہے۔ ملکی ناخدائوں کا کہنا ہے کہ دھرنوں نے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ کپتان عمران کا تاریخی دھرنا کسی منطقی نتیجے کے بغیر ختم ہوا تھا۔ اس کے بعد ہی لوگوں کو اندازہ ہوا، سرکار سے ٹکر لینا آسان نہیں۔ ہمارے ہاں تو سرکار ٹکر مار کر پوچھتی ضرور ہے۔ گزشتہ تین سال سے مسلم لیگ نواز کا سکہ چل نہیں رہا بلکہ دوڑ رہا ہے۔ تین سالوں میں تین حیرت انگیز بجٹ صرف اور صرف اعداد کے ماہر خصوصی نے اتفاق رائے سے بنوائے اور عوام میں بہت ہی مقبولیت حاصل کی۔ صرف اور صرف فرق اتنا پڑا کہ آئی ایم ایف کو قرضے دینے میں دشواری نہیں ہوئی مگر لوگوں کی جیبوں میں سوراخ بہت ہوئے ہیں؎
میری جیب میں ذرا سا چھید کیا ہوا
سکوں سے زیادہ’’رشتے ‘‘ سرک گئے!!
سو فرق صرف صوبوں کے رشتوں میں ضرور آیا۔
ہمارے پیارے وزیر اعظم محترم نواز شریف خوش اطوار اور خوش خوراک بہت ہیں۔ نہ جانے ان کو کس کی نظر لگ گئی کہ دل کے معاملات معمول کے مطابق نہ رہے، مگر میاں نواز شریف اعلیٰ ظرف انسان ہیں، دل کے معاملات کو محسوس تو ضرور کیا مگر کسی سے تذکرہ تک نہ کیا اور امور مملکت میں مصروف عمل رہے۔ زیادہ وقت دفتر میں یا بیرون ملک دوروں میں گزارئے۔ ان کی اکثر اسمبلی میںکمی کسی بہت ہی محسوس کی جانے لگی۔ میاں نواز شریف کو اندازہ تھا کہ اسمبلی میں کام اپنے ڈھب کے مطابق ہورہا ہے تو وہاں جانا اتنا ضروری بھی نہیں جب کپتان عمران کا دھرنا طویل ہوا تو میاں نواز شریف نے اسمبلی میں اپنا کردار خوب ادا کیا اور سیاست کی ڈولتی نائو کو توازن دیا اور جمہوری نظام کو مشکل سے نکالا۔ بس اتنا ضرور ہوا کہ بے چاری جمہوریت بچ ضرور گئی مگر بدنامی بھی جمہوریت کی ہوئی۔ خیر سے ہمارے ہاں نیک نامی اور بدنامی میں کوئی بھی فرق نہیں ہے بلکہ بقول شاعر؎
بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا!
سو نامی گرامی لوگ پاکستان کی اشرافیہ بس بدنامی سے نہیں ڈرتے اور ان کو نیک نامی کی ضرورت بھی نہیں۔
اب جب ایک دفعہ پھر ملکی سیاست کا سٹیمر بھنور میں ڈول رہا ہے۔ حزب اختلاف کے شریف النفس رہنما خورشید شاہ اپنا موثر کردار خوب ادا کررہے ہیں۔ ان کی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار سے خوب سلام دعا ہے۔ جناب ڈار نے خصوصی اختیارات کے ساتھ حزب اختلاف کے بڑے لیڈر خورشید شاہ کے لئے بڑی معقول رقم بجٹ میں مخصوص کی جو ان کے رتبے کے مطابق کم ہے مگر نواز لیگ نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور پہلی دفعہ حزب اختلاف کے کسی لیڈر کو اتنی اہمیت ملی ہے، مگر اس اہمیت نے حزب اختلاف کو مزید اختلاف رائے میں بدل دیا ہے، جب بھی حزب اختلاف کے لوگ کوئی فیصلہ کن اجلاس بلاتے ہیں تو کوئی بھی فیصلہ کرنے میں دیر کردیتے ہیں اور یوں لگتا ہے؎
چہرے سجے سجے ہیں تو دل ہیں بجھے بجھے
ہر شخص میں تضاد ہے دن رات کی طرح
تو ایسے میں یقین کرنا پڑتا ہے کہ دھرنوں سے دھڑن تختہ آسان نہیں، مگر ان دھڑنوں نے ہماری سیاست میں عام لوگوں کے لئے اظہار رائے کا ایک ذریعہ ضرور بن گیا۔ عوامی اظہار یہ طریقہ نواز لیگ کو قابل قبول بھی ہے۔اس طوفانی سیاست میں پاکستان میں دہشت گردی بھی عوام کے لئے پریشان کن ہے۔ چند دن پہلے رمضان میں امجد صابری قوال کا قتل ہمارے ملکی حساس اداروں کے لئے ایک اور امتحان ہے۔ امجد صابری قوال ایک عوامی فنکار تھا۔ معاشرہ کا ہر طبقہ فکر اس کو عزت اور اہمیت دیتا تھا۔ اس کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہ کسی کو بھی مایوس نہ کرے مگر نہ جانے وہ کون اور ’’نامعلوم‘‘ بھائی لوگ تھے جو اس سے مایوس تھے وہ اس کو مار کر کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔ کراچی میں جو امن کے لئے لوگ کوشش کررہے ہیں وہ بالکل مایوس نہیں، مگر سڑکوں پر جو لوٹ مار ہورہی ہے وہ خلاف توقع بھی نہیں، سندھ سرکار بلاول شہزادے کے لئے ہر دم تازہ دم رہتی ہے۔ کراچی شہر ایک شہر طلسم ہوشربا ہے؎
یہ شہر طلسمات ہے، کچھ کہہ نہیں سکتے
پہلو میں کھڑا شخص، فرشتہ ہے کہ ابلیس
سو امجد صابری کو قتل کرنے والے ابلیس کے نمائندے ہی نہیں، سیاست کے اہم کردار بھی نظر آتے ہیں۔ سو ایسے میں سیاست اور سیاستدانوں پر کون اعتبار کرے۔پاکستان کے لوگ امجد صابری کے قتل کے بعد ابھی اس صدمہ سے نہیں نکلے تھے کہ ملک کی ایک اور اصلی عوامی شخصیت پاکستان کا ساتھ چھوڑ گئی۔ وہ کچھ عرصہ سے زیادہ علیل تھے، کافی عرصہ سے ان کے گردے جواب دے چکے تھے ملک کے عظیم ڈاکٹر ادیب رضوی ان کے معالج تھے وہ ان کی خوب خدمت کرتے تھے۔ مولانا ایدھی ملک بھر میں یکساں مقبولیت رکھتے ہیں ایک زمانہ میں ان کو سیاست کا شوق تھا مگر جنرل ضیاء کے زمانہ میں ان کا یہ شوق بھی کافور ہوگیا۔ وہ سیاستدانوں اور سیاست سے مکمل طور پر ناراض تھے اور جمہوریت کے بارے میں میں بھی ان کی رائے محدود ذمہ داری کے ساتھ تھی۔ وہ ملکی سیاست کو عوام کے لئے ایک جبر سمجھتے تھے۔ وہ ایک مکمل قلندر ا ور صوفی تھے اور ان کا روپ ایک فقیر کا سا تھا۔ ایک دفعہ علم کے بارے میں بات ہورہی تھی تو انہوں نے بے ساختہ کہا’’بھائی میاں علم ایک لازوال دولت ہے لیکن کیا زمانہ آگیا ہے کہ علم کے لئے بھی لازوال دولت کا ہونا ضروری ہے تو اس کا مطلب ہے اب علم صرف امیروں کا ہتھیار ہے۔
جناب ایدھی کا انتقال پاکستانی قوم کا امتحان بھی ہے۔ ایک دفعہ ان سے طالبعلموں نے پوچھا کہ ملک معاشی طور پر کیسے ترقی کرسکتا ہے تو موصوف نے کیا صرف کام کرکے اور بولے جب آمدنی صرف چھت اور خوراک حاصل کرنے پر لگ جائے تو یہ غلامی ہوئی اور ہم سب سرکار کے غلام ہیں۔ غریب کی کسی کو فکر نہیں، پھر بتانے لگے کہ ہمارا یہ کام بھی عبادت ہے، ویسے عبادت کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو سب مسجد میں جاکر کرتے ہیں اور دوسری مسجد سے باہر ہوتی ہے۔ مجھے اب معلوم ہوا کہ مولانا نے ثابت کردیا کہ مسجد سے باہر عبادت کیسے کی جاتی ہے اگر عبادت کا اثر مسجد سے باہر نہ آئے تو مسجد کی عبادت اصل عبادت کی تیاری ہے۔ مولانا نے لوگوں کو آسانیاں فراہم کرکے عبادت کی ا ہمیت مسلم کردی ہے ایدھی رب پر بہت فخر کرتے تھے۔ اس کا زندہ ثبوت ہے موت ہو تو ایدھی جیسی۔ جب فرشتے اللہ کے حکم سے ایدھی کے پاس آتے ہوں گے اور انہوں نے سوال کیا ہوگیا بتا تیرا رب کون ہے؟ تو مجھے یقین ہے اللہ کریم نے فرشتوں کو کہا ہوگا مجھ سے پوچھ لو میرا بندہ کون ہے۔بندگی ایدھی پر ختم تھی۔
تازہ ترین