• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین پاکستان میں 26ویں ترمیم کی منظوری کو یقینی بنانے کیلئے حکومت کی جارحانہ سیاسی مہم جوئی سے جو کنفیوژن اور ہیجان پیدا ہوا اس سے یہ (ترمیم) عوام کی نظر میں تو پہلے ہی مشکوک و متنازع ہوگئی تھی لیکن اس میں دولت کی چمک کے علاوہ فسطائیت کوبھی بطور ٹول استعمال کرنے کی تصدیق،اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دینے والے بلوچ رہنما اختر مینگل کی پارٹی کے مریض بزرگ اور خاتون رکن کو بذریعہ پولیس اسمبلی میںحاضر کرنے کے شرمناک طریق سے ہو گئی، جسے سوشل میڈیا نے دنیا بھر کو دکھا دیا۔ واضح رہے ترمیم منظور ہونے سے دوتین ہفتہ پر مشتمل پس منظر مشکوک کنفیوژڈ اور فسطائی ہتھکنڈوں سے پرہو نے کے باوجود پی ٹی آئی اور مولانا صاحب کے اصلی مسودے دکھانے اور ان میں چھپے سانپ بھگانے کے مشترکہ دبائو کے باعث اطمینان بخش حد تک مینج تو ہو گیا تھا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوتا کہ پی ٹی آئی منظوری والی رات اجلاس میں پورا پارلیمانی گروپ تو نہیں لیکن چیدہ چیدہ ارکان کی علامتاً شرکت سے کارروائی کو اعتبار تو مل گیا تھا۔ پھر بھی وائے بدنصیبی ترمیم کا پہلا یا فوری عملی نتیجہ تیسرے سینئر جج صاحب کی بطور چیف جسٹس تقرری کے بعد یہ (ترمیم) منظور ہوتے ہی پھر متنازع اور عوام کیلئے ناقابل ہضم ہو گئی۔ اب اس کا جارحانہ خبری فالو اپ اور کج بحثی سےمکمل سیاسی ہو گئے ٹی وی ٹاک شوز اور بوجھل تجزیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ’’منظوری مشن‘‘ کامیاب ہونے پر بھی سخت متنازع ہو گئے چیف جسٹس کی رخصتی کے یقین کے باوجود، تیسرے سینئر جج صاحب کے چیف جسٹس مقرر ہونے اور اس پر اس میں پی ٹی آئی کی عدم شرکت سے ترمیم کے پھر متنازع ہونے کے بعد اب گمان غالب ہے کہ تجزیوں اور رائے عامہ میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے غیر جانبداری کے عمومی تاثر اور پروفیشلزم پر چوکس رہنے کی تسلیم و تحسین کے باوجود غالباً اسے (انکی تقرری کو) فارم 47والی حکومت کا خود غرضانہ اور پارلیمانی سیاسی اور عوام مخالف اقدام سمجھا جائے۔ دلچسپ اور بہت اہم یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تاریخ کو شفاف کرنے کی شدت سے قومی ضرورت کے موقع پر حساس ترین ذمے داری سنبھالتے ہی اپنے پروفیشنل کیرئیر کے سب سے بڑے چیلنج سے دو چار ہوگئے ہیںکہ وہ پی ٹی آئی کے حق میں مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرا پاتے ہیں یا نہیں؟ لیکن عہدہ سنبھالتے ہی وہ اس کڑے امتحان میں یہ حکیمانہ فیصلہ کر کے کہ تیسری سینیارٹی کے جج کو مقرر کرنے پر ناقدانہ تجزیوں کو خاطر میں نہ لا کر تقرری سے انکار کی بجائے اسے قبول کرنے پر فوراً تیار ہو گئے اس پر پی ٹی آئی کے حامی وکلا مطمئن اور مخالف فکر مند معلوم دیئے کہ انکے ہم خیال سمجھے جانے والے چوتھے جج صاحب کے چیف جسٹس بننے کا ایک مخصوص فیصد امکان زیرو ہو گیا۔ شکر ہے کہ متنازع ترمیم کی منظوری کے باوجود سپریم کورٹ کے پہلے تین سینئر ججز کے مجموعی رویے اور انفرادی فیصلے کے نتیجے میں عدلیہ کے ڈھانچے میں بعد از تقسیم مزید بگاڑ کے جملہ امکانات میں سے ایک معدوم ہو گیا۔

شفاف الیکشن بمطابق آئین ،الیکشن ہی جاری اور مسلسل بڑھتے سیاسی و آئینی اور معاشی بحران کا حقیقی حل تھے لیکن اسکے نتائج کو الٹ کر تعمیر وطن کے آئینی تقاضوں اور عوام سے بے وفائی اور سیاسی مہم جوئی کا جو ارتکاب ہوا اس کا توڑ آئینی ترامیم میں نہیں بلکہ بمطابق آئین ہی حقیقی مینڈیٹڈ حکومت کا قیام ہے۔ اب چونکہ ہاروں پر مشتمل عوام، فیصلے سے متصادم حکومت، منقسم عدلیہ کے فیصلوں سے قانونی اور اخلاقی بنیاد سے یکسر مختلف، حکومت عوامی فیصلے کو کچل کر قائم کردی گئی ہے تو اتنی ہی متنازع آئینی ترامیم عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہیں۔ وائے بدنصیبی، پاکستان کا معاشرہ، پورا نظام ریاست اتنا اور اس طور تقسیم ہوا ہے کہ: اب سب اپنی اپنی پوزیشن پر ہیں، ایک راہ ہے کہ اطلاق کی یقینی نتیجہ خیزی والے علم اور سکہ بند ٹیکنالوجی سے مدد لے لی جائے کہ ہم جس مہلک انٹرا اسٹیٹ کنفلکٹ میں آگئے ہیں اسے مکمل غیر جانبدار اور رائج الوقت اور ٹیکنالوجی (متعلقہ باڈی آف نالج) اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے حل کرنے کی کوششیں کریں۔ یہ ٹیکنالوجی ہر سوال کا جواب متعلقہ ڈسپلن کے وسیع و عریض نالج ڈپازٹ سے نکال کر کسی انسانی انحصار کے بغیر صرف اور صرف علم کی بنیاد پر آنِ واحد میں دیکر بہت سی الجھنوں اور تجسس اور کنفیوژن کو ختم کردیتی ہے۔ کوئی فرد یا معاشرہ اس سے کتنا فائدہ اٹھاتا ہے، یہ اس کے رویے پر ہے کہ وہ علم کو کتنی اہمیت دیتا ہے لیکن ایسے جامد رویے اپنے تئیں جتنے بھی مخلصانہ یا خود غرضانہ ہوں تباہ کن ثابت ہوئے اور ہوں گے۔ اس سارے تناظر میں خاکسار نے مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارم META APP کے پلیٹ فارم سے جو کواریز کیں ان کا ٹیکسٹ برائے مطالعہ حاضر ہے:

خاکسار کا سوال:متعلقہ علم کی روشنی میں واضح کریں کہ تمام ترقی پذیر جمہوری ریاستوں میں بنیادی ڈھانچہ آئین کالازمی جزو ترکیب ہے کیا اس ڈھانچے میں تمام آئین ہائے ریاست کے کچھ عناصر مشترکہ بھی ہوتے ہیں خصوصاً آزاد عدلیہ، اس کے علاوہ اور کیا ہیں؟۔میٹا اے آئی کا جواب:جی، بالکل درست ہے کہ ترقی پذیر جمہوریتوں کے آئین میںاس کا بنیادی ڈھانچہ ناگزیر ہے۔ یہ تصور جمہوری آئین سازی کے کور پرنسپلز اور فیچرز کے زمرے میں آتا ہے جس کی کوئی کاٹ چھانٹ ہو سکتی ہے نہ اس کی خلاف ورزی کسی ترمیم یا قانون سازی سے کی جاسکتی ہے۔ ڈھانچے کی کچھ گرائونڈز ہر ڈھانچے میں مخصوص لازمہ ہوتی ہیں جو یہ ہیں: عدلیہ، جیسا کہ آپ نے کہا آزاد عدلیہ اہم اور حساس ترین ہے اس کا غیر جانبدار اور انتظامیہ کے اثر اور قانون سازی کے کنٹرول سے آزاد رہنا لازم ہے۔ اسی طرح ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم، قانون کی حکمرانی (رول آف لا) بنیادی، جمہوری حکومت اور وفاقیت (وفاقی طرز حکومت میں)چیک اینڈ بیلنس، اور لیگل پروسیجر کو فیئر، غیر جانبدار اور مسلمہ رولز کو یقینی بنا نے والا ڈیو پراسس ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا لازمہ ہے۔ یہ اجزائے ترکیبی ہر جمہوری آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ناگزیر اجزائے ترکیبی ہیں۔

قارئین کرام یہ ہما گیر جواب خاکسار یا کسی کا بھی تجزیہ ہے ،تجویز رائے نہ کسی پارٹی یا لیڈر کا قابل بحث ایجنڈا ہے۔ یہ پریکٹسنگ نظام ریاست کا متعلقہ نالج ہے جو آئینی عمل داری کو عوام کی فلاح و بہبود، مسلسل ترقی اور سیاسی و معاشی و انتظامی استحکام کا ناگزیر تقاضا ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر جمہوری مملکتوں میں اس علم کی عملی پیروی کے حوالے سے انکی در جہ بندی، ڈویلپڈ اور ڈویلپنگ مملکت ہونے کے حوالے سے ہوتی ہے۔ اسکی روشنی میں ہمارے نظام ریاست چلانے کے تمام اسٹیک ہولڈر جس میں میٹا اے آئی کے مطابق ووٹرز (عوام الناس) اولین اسٹیک ہولڈر ہیں جن کے مینڈیٹ کو الٹ کر ہماری موجودپارلیمان وجود میں آئی ہے جو متعلقہ علم سے متصادم پریکٹس سے پارلیمان اور ریاستی اداروں کو اپنی اجارہ داری سے چلا رہی ہے نتائج سامنے ہیں۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے غورفرمائیں۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین