یہ ڈھائی تین سو سال پہلے کی بات ہے، یہ میری جوانی کے دن تھے اور ہر روز روزِ عید تھا، ہر شب ، شب برات۔ دوستوں کے ساتھ نائو نوش کی محفلیں جمتیں، میرے یار دوست پتہ نہیں کیوں چاہتے تھے کہ شہر میں میری شہرت ایک صاحب کرامات بزرگ کے طور پر ہو چنانچہ انہوں نے سادہ لوح لوگوںمیں میرے حوالے سے عجیب و غریب واقعات مشہور کرنا شروع کردیئے۔ مثلاً یہ کہ حضرت ایک دن اپنی ایک مریدنی پر دم کر رہے تھے اسے یہ مرض لاحق تھا کہ وہ لمبی لمبی سانسیں لیتی تھی اور لیٹتے وقت وہ ایک سائڈ پر نہیں لیٹ سکتی تھی۔ حضرت کے حاسدوں نے اس روحانی عمل کو جانے کیا رنگ دیا کہ بے شمار لوگ دروازہ توڑ کر حضرت کے حجرے میں داخل ہوگئے اور یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ اندر کوئی خاتون نہ تھی بلکہ حضرت جائے نماز پر بیٹھے یاد اللّٰہ میں مصروف تھے۔بس یہاں سے میری ولایت کی بنیاد پڑی اور شہر کا شہر میرے حلقہ ارادت میں آگیا۔
میرے شب و روز کے یہ دوست ستر اسی برس کی عمر میں انتقال کرگئے مگر اب ان کا کام خود میرے مریدوں نے سنبھال لیا۔ اس زمانے میں مجھے اپنی ولایت کے کچھ ایسے قصے سننے کو بھی ملے کہ خود مجھے شبہ گزرنے لگا کہ میں واقعی بہت پہنچا ہوا بزرگ ہوں اور یہ کہ میں قدرت کے کاموں میں بھی دخل دے سکتا ہوں۔ ایک روز مجھے پتہ چلا کہ شہر میں میری کرامات کی دھوم مچی ہوئی ہے، ان میں سے ایک کرامت یہ تھی کہ میرے مرید کا ایک اکلوتا بیٹا فوت ہوگیا اور وہ روتا ہوا میرے پاس آیا، بس وہ ایک ہی بات کئے جا رہا تھا کہ مجھے میرا بیٹا واپس چاہئے۔ روایات کے مطابق اس کی آہ و بکاہ سن کر میں خود بھی آبدیدہ ہوگیا۔ میں نے فضا کی طرف ایک ڈائی ماری اور دیکھتے ہی دیکھتے ساتویں آسمان تک پہنچ گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ عزرائیل ایک تھیلے میں وہ روحیںلئے محو پرواز تھے جو اس روز انہوں نے اللہ کےحکم سے قبض کی تھیں۔ میرے مریدوں کے مطابق میں نے عزرائیل سے کہا کہ اس تھیلے میں میرے فلاں مرید کے بیٹے کی روح بھی موجود ہے وہ مجھے واپس کردیں۔ اس پر عزرائیل نےکہا میںایسا نہیں کر سکتا۔ حضرت (یعنی میں نے)دو ایک بار پھر نرمی سے اپنی بات دہرائی مگر جب وہ ہر بار یہی کہتے رہےکہ میں ایسا نہیں کر سکتا تواس تکرار میں میرا پارہ چڑھ گیا۔ میں نے عزرائیل سے روحوں والا تھیلا چھین لیااور الاسٹک اتارکر ساری روحیں آزاد کردیں جس میں میرے مرید کے بیٹے کی روح بھی شامل تھی۔
اب میں آپ کو کیا بتائوں، میری ایک کرامت یہ بھی مشہور کی گئی کہ میں اکثر اپنے مریدوں کی دعوت کرتا، میرے سامنے دیسی مرغی کی ڈشیں ہوتیں اور مریدوں کے سامنے مونگی کی پتلی سی دال پڑی ہوتی ۔ میں مرغی کھاتے ہوئے اس کی ہڈیاں علیحدہ رکھتا جاتا تھا ایک دن ایک بدتمیز مرید نے بھری محفل میں کہہ دیا کہ حضرت آپ مرغی کھاتے ہیں اور ہمیں دال کھلاتے ہیں۔ یہ سن کر میں نے ساری ہڈیاں سب مریدوں کی طرف پھینک دیں اور ان کے پاس پہنچتے ہی سب ہڈیوں نے سالم مرغ کی شکل اختیار کرلی۔ اب میں آپ کو کیا کیا بتلائوں۔ ڈھائی تین سو سال کی عمر میں حافظہ کچھ کمزور ہو چکا ہے۔ انہی دنوں مجھ تک ایک کرامت یہ پہنچی کہ حضرت ہر وقت یاد الٰہی میں مشغول رہتے ہیں لیکن نماز، روزے سے پرہیز کرتے ہیں کہ کچھ لوگ بدظن ہو جائیں اور میرےپاس آنا بند کردیں، مگر اکثریت کا خیال تھا کہ جب وہ روزے کی حالت میں ہوتےہیں یا نماز پڑھنے میں مشغول ہوتے ہیں وہ خود کو بدعقیدہ لوگوں کی نظروں سے چھپا لیتے ہیں،ایک کرامت یہ بھی بہت مقبول ہوئی کہ پیر و مرشد کا جب جی چاہے وہ جنت کا ایک پھیرہ لگالیتے ہیں جہاں ان کی ملاقات ایسی باحیا حوروں سے ہوتی ہے جنہوں نےستر ستر لباس پہنےہوتے ہیں ، ہر لباس سے نیچے لباس پھر اس کے نیچے کا لباس حتیٰ کہ ستر لباسوں کی موجودگی میں بھی ان کا بدن دکھائی دے ہی جاتا ہے ۔ حضرت نے ایک نظر ان پر ڈالی پھر دودھ کی نہروں میں سے ایک گھونٹ، شہد کی نہر میںسے تھوڑی سی شہد مکس کرکے آگے چل پڑے۔ وہاں دیکھا کہ لوگ بیٹھے شرابِ طہور پی رہے ہیں اور وہی حوریں ساقی کا فریضہ ادا کر رہی ہیں، حضرت نے بھی یہ شغل فرمایا، اس کے علاوہ جنت کی دوسری نعمتوں سے بھی بہرہ ور ہونے کے بعد واپس اپنے حجرے میں آگئے۔ مگر میری یہ کرامت میرے لئے بہت پریشانی کا باعث بنی، ہر کوئی آتا کہ آپ نے وہاں کیا دیکھا، میں وہ بتا دیتا ہوں جو آپ کو بتایا مگر ان کی تسلی نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کچھ اور بھی بتائیں اور ذرا تفصیل سے بتائیں۔ اب انہیں کون بتائے کہ خاصوں کی بات عاموں سے نہیں کی جاتی۔
اور آج 25 اکتوبر 2024ء ہے ، اب اس بات کو دفع کریں کہ میں پہلے اپنی عمرسینکڑوں برس بتا چکا ہوں حالانکہ میں ابھی صرف اسی برس کا ہوں، آپ نے بھی سنا ہوگا کہ مصلحتاً جھوٹ بولنا جائز ہے بہرحال جو کرامتیں میں نے آپ کو سنائیں وہ سب سنی سنائی تھیں مگر ایک ’’کرامت‘‘ کا ذکر جو میں نے خود ایک مولوی صاحب سے سنا ،وہ یہ خوشخبری سنا رہے تھے کہ آئن سٹائن آخری عمر میں مسلمان ہوگیا تھا اور اس نے مجھے جو خط لکھا وہ اس وقت بھی میری جیب میں ہے۔ خیر میں نے آخر میں بتانا یہ تھا کہ جو کرامتیں میں نے آپ کوسنائیں جو مجھ سے منسوب تھیں وہ آج مختلف مقدس بزرگوں سے منسوب ہوگئی ہیں، ان نیک اور برگزیدہ بندوں کے گدی نشین دراصل ’’گندی‘‘ نشین ہیں۔ ان کے سالانہ عرس ہوتے ہیں مگر اصل موج گدی نشینوں کی ہے ان کے مرید اپنے حضرت کے سامنے ناچتے ہیں ، گاتے ہیں اور ساتھ ساتھ پیسے بھی وصول کرتے جاتے ہیں بعض اوقات یہ صاحب خود بھی ویلیں دیتے ہیں اور شریک رقص بھی ہوتے ہیں ۔میں باقاعدگی سے رقص و سرود کی ان محفلوں میں شریک ہوتا ہوں ایک پیرصاحب دلہن کے لباس میں رقص کرتے ہیںاس وقت ان کا انگ انگ ناچ رہا ہوتا ہے، میں ان پر سے نوٹ اس طرح نچھاور کرتا ہوں جس طرح عادی تماش بین کرتے ہیں۔