• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

رنگ و بوُ، نُور کے پیکر ہیں، یہ سارے بچے ...

تحریر : نرجس ملک

مہمان بچّے: ریّان، حریم، ابوبکر، عبدالہادی، مہرماہ، حُورعین 

وارڈروب: برانڈ ڈیزائر

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

کبھی کسی نے بچّوں کے بغیر دنیا/ زندگی کا تصوّر کر کے دیکھا ہے۔ بخدا ہمیں تو ساری کائنات ایک گورستان، ریگ زار ہی کی مانند معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں بچّے ہیں، تو حیاتی کے سینے میں دل دھڑکتا، زیست کی سانسوں میں روانی ہے، وگرنہ تو بس چہار سُو ویرانی ہی ویرانی ہے۔ قدرت نے صرف ایک بچّے ہی میں اس قدر قوّت و صلاحیت، کشش و جاذبیت رکھی ہے کہ وہ انتہائی معصوم، بے ضرر و بےریا ہو کے بھی اپنے اِرد گرد کا سارا ماحول بدلنے کی طاقت و اہلیت رکھتا ہے۔ 

تب ہی اگر کسی جگہ ایک ننّھا مُنا، شوخ و شنگ، معصوم، چلبلا سا بچّہ موجود ہو تو وہاں نہ صرف ہر فرد کی توجّہ اُس کی جانب مبذول ہوجاتی ہے، بلکہ درودیوار، اطراف کی اِک اِک شئے بھی خُوب ہنستی مُسکراتی، گاتی اِٹھلاتی سی محسوس ہوتی ہے۔ یونہی تو عبّاس تابش نے نہیں کہا تھا کہ ؎ فقط مال وزر، دیوار ودَراچھا نہیں لگتا… جہاں بچّے نہیں ہوتے، وہ گھر اچھا نہیں لگتا۔ اور جب ایک گھر اچھا نہیں لگتا، تو پوری دنیا کے اچھے لگنے کا تو تصوّر ہی ناممکن ہے۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ دنیا کا ہر بچّہ ہی اپنی جگہ ایک رنگارنگ، معطّر پھول ہے اور یہ سب پھول مل کر ہی ایک گلستاں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔

بچّوں کے لیے تو نبی کریم ﷺ کا دریائے رحمت بھی ایسا رواں تھا کہ چند ایک مختصر احادیث کے بیان ہی سےبآسانی وضاحت ہوجاتی ہے۔ مثلاً حضرت انسؓ فرماتے ہیں، ’’نبی کریمﷺ سب سے زیادہ بچّوں پر مہربان تھے۔‘‘ اِسی طرح ایک اور حدیثِ مبارکہؐ ہے کہ ’’مسلمانوں کے بچّے جنّت کی چڑیاں ہیں۔‘‘ جب موسم کا کوئی نیا پھل نبی کریمؐ کے پاس لایا جاتا، تو آپؐ برکت کی دُعا فرما کے وہاں موجود چھوٹے بچّوں کو عطا کرتے۔

حضرت انسؓ ہی سے منقول ہے کہ آپؐ جب انصار کے پاس تشریف لے جاتے، تو اُن کے بچّوں کو سلام کرتے، اُن کے سَروں پر دستِ شفقت رکھتے اور اُن کے لیے دُعا فرماتے۔ اور یہ حدیث توشاید سب ہی نے سُن رکھی ہوگی کہ حضوراکرمؐ نے فرمایا۔ ’’مَیں نماز شروع کرتا ہوں، تو چاہتا ہوں کہ اُسے لمبی کروں۔ 

پھر کسی بچّے کے رونے کی آواز سُنتا ہوں، تو اپنی نماز مختصر کردیتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے کہ اُس کے رونے کی وجہ سے اُس کی ماں کو تکلیف ہوگی۔ (متفق علیہہ)۔ تاریخ میں امام جلال الدین سیوطی اور کسی مسلمان مفکر سے بھی دو مِلتے جُلتے سے اقوال منسوب ہیں۔ 

امام سیوطی کا قول ہے کہ ’’بچّوں کی 5 صفات ایسی ہیں، اگر بڑے اپنا لیں، تو اولیاء بن جائیں۔ رزق کی زیادہ پروانہیں کرتے۔ بیمار ہوتے ہیں، تو اپنے خالق سے شکوہ نہیں کرتے۔ کھانا ایک ساتھ کھاتے ہیں۔ ڈر جاتے ہیں، تو آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔ اور لڑتے ہیں، تو جلدی صلح کر لیتے ہیں۔‘‘ جب کہ دوسرا معروف قول اِس طرح ہے کہ ’’بچّوں کی پانچ عادات کا تو کوئی ثانی ہی نہیں۔ 

اوّل، وہ روکے مانگتے ہیں اور اپنی بات منوا لیتے ہیں۔ دوم، مٹّی سے کھیلتے ہیں، یعنی غرورخاک میں مِلاتے ہیں۔ سوم، لڑتے جھگڑتے، مگرجلدصُلح صفائی کرلیتے ہیں، دِل میں بغض، حسد وکینہ نہیں رکھتے۔ چہارم، بھوک کے وقت کھانا مانگتےاور کھالیتے ہیں، اُن میں جمع کرنے کی حرص نہیں ہوتی۔ اور پنجم، مٹّی کے گھروندے بناتے، کھیل کےگِرا دیتے ہیں، مطلب دنیا کوعارضی، فانی جانتے ہیں۔‘‘ واقعی، بچّے، بچّے ہی ہوتے ہیں اور اِس بڑوں کی دنیا میں بچّے نہیں، تو کچھ بھی نہیں۔ 

وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’جس دن یہ دنیا خُوب صُورت نہ لگے، کسی چھوٹے بچّے کو آئس کریم کھاتا دیکھ لیں۔‘‘ ایسے ہی ایک اور قول ہے کہ ’’یہ دنیا ایک بچّے کی آنکھ سے جس قدر حسین نظر آتی ہے، کسی اورآنکھ سےنظرآہی نہیں سکتی۔‘‘ تب ہی بڑے ہوکر جب دل ٹُوٹنے لگتے ہیں، تو اندازہ ہوتاہے کہ بچپن کی ٹوٹی پینسلیں، کھلونے، کچّے گھروندے، چھوٹی چھوٹی لڑائیاں، چِھلے ہوئے گھٹنے اور آدھی ادھوری کہانیاں، قصّے بھی کتنی بڑی نعمت تھے۔

ہم بڑوں کے لیےتومستقل ایک سے ایک محافل سجاتے ہی رہتے ہیں، آج سوچا، کیوں نہ گُل و گل زار، گہر، چاند ستارے بچّوں کے لیے بھی ایک بزم سجا دیکھی جائے۔ جریدے کے آنگن میں بھی کچھ شگوفے مہکیں، گُل کِھلیں، تتلیاں منڈ لائیں۔ ہمارا اُفق بھی چاندنی سے نہائے، رنگ و نُور، روشنیاں لُٹائے۔ وہ فاروق انجینئر کی ایک بہت اُجلی سی نظم ہے ناں ؎ ’’گل و گُل زار، گہر، چاند ستارے بچے…رنگ و بُو، نُور کے پیکر ہیں، یہ سارے بچّے…آئینے ہیں کہ دمکتے ہوئے چہرے اِن کے…ایسے شفّاف کے دریائوں کے دھارے بچّے…کتنے معصوم کہ یہ سانپ پکڑنا چاہیں…کتنے بھولے ہیں کہ چُھوتے ہیں شرارے بچّے…آنے والوں کو بتا دیتے ہیں گھر کی باتیں…کب سمجھتے ہیں یہ آنکھوں کے اشارے بچّے…خُود سے دس بیس برس اور بڑے لگتے ہیں…گھربناتے ہوئے دریا کےکنارے بچّے…گاؤں جاتا ہوں تو چوپال کا اِک بوڑھا درخت…بانہیں پھیلا کے یہ کہتا کہ آرے بچّے۔‘‘ تو بس، سمجھیں، آج کی یہ انتہائی رنگیں، بہت ہی حسین و دل نشیں سی بزم اپنے اندر کے بچّے (وہ کیا ہے ؎ دل تو بچّہ ہے جی، تھوڑا کچا ہے جی) اور باہر کے بہت سارے بچّوں کو راضی کرنے ہی کی خاطر سجائی گئی ہے۔ 

چاہیں، تو آپ بھی ہمارے ساتھ شریک ہو کر آج کے دن ایک ’’بھرپور جیون‘‘ جی سکتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ بڑی حسرت سے انساں بچپنے کویاد کرتا ہے…یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے، خام ہوجائے۔ اور؎ دیکھ بچّوں سے گفتگو کر کے…کیسی ہوتی ہیں بےضرر باتیں۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید