شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے فوراً بعد سے حکومت اور اپوزیشن دوبارہ برسرپیکار ہو چکی ہیں۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر قضیوں کو پس پشت ڈال کر ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے آبادی اور وسائل کے اعتبار سے اقوام عالم کے اس اہم اتحاد میں شامل ممالک کیساتھ معاشی تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دی جائے۔ اس طرح پاکستانی برآمد کنندگان کے امریکہ اور یورپ کی روایتی برآمدی منڈیوں پر انحصار کو کم کرکے انہیں ایس سی او ممالک کی بڑی اور قریب ترین مارکیٹس تک رسائی فراہم کرکے برآمدات میں نمایاں اضافہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستانی برآمدات میں 60فیصد سے زائد شیئر کے حامل ٹیکسٹائل سیکٹر کو پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کے برآمدی آرڈرز کے حصول میں جو مشکلات درپیش ہیں انکے پیش نظر متبادل برآمدی مارکیٹوں تک رسائی کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں چین روس جیسے اہم عالمی ممالک کیساتھ ساتھ کئی وسطی ایشیائی ریاستیں بھی شامل ہیں جو پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کیلئے ایک بڑی مارکیٹ بن سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی مجموعی آبادی تین ارب سے زیادہ ہے جہاں ٹیکسٹائل کی معیاری مصنوعات کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں اگر پاکستان کے برآمد کنندگان کو حکومتی تعاون میسر آجائے تو باقاعدہ حکمت عملی کے تحت ان ممالک کے صارفین کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسی ٹیکسٹائل مصنوعات متعارف کروائی جا سکتی ہیں جو مستقبل میں ان ممالک کے صارفین کو پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کا مستقل گاہک بنا سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں وسطی ایشیائی ممالک اور روس میں مارکیٹ کی حرکیات، صارفین کی ترجیحات اور تجارتی قواعد و ضوابط سے آگاہی ضروری ہے جس کیلئے حکومت کو خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مارکیٹ ریسرچ، تجارتی نمائشوں کے انعقاد اور تشہیری سرگرمیوں کیساتھ ساتھ ایس سی او ممالک کیساتھ دو طرفہ تجارت کے معاہدے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان میں نقل و حمل کے ذرائع، کسٹم کا طریقہ کار اور بندرگاہوں پر کلیئرنگ کی سروسز کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ شپنگ انڈسٹری سے متعلق واضح ریگولیٹری نظام نہ ہونے کی وجہ سے برآمد و درآمد کنندگان کو اکثر تاخیر اور اخراجات میں اضافے جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اسی طرح بعض ایس سی او ممالک کی طرف سے عائد کردہ ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ ان مسائل پر قابو پانے اور ایس سی او ممالک سے معاشی تعلقات کو استوار کرنے کیلئے حکومت کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی کامیابی کو اپنے حق میں استعمال کرنے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح انفراسٹرکچر کی بہتری میں سرمایہ کاری، تجارتی تعلقات کے فروغ اور ٹیکسٹائل سیکٹر کی مسابقتی صلاحیت کو بڑھا کر پاکستان اپنی برآمدات میں اضافے سے طویل مدتی اقتصادی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتا ہے۔ تاہم اس کیلئے حکومت کو انرجی ٹیرف اور بینکوں کے مارک اپ ریٹ کو کم کرنے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں کمی لا کر عالمی سطح پر پاکستان کی مسابقتی پوزیشن بہتر بنائی جا سکے۔ ایس سی او ممالک سے باہمی تجارت کو فروغ دینا اسلئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت پاکستان کی انڈسٹری کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ انرجی ٹیرف میں اضافے کا ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے میں ایس سی او ممالک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ توانائی کے شعبے میں باہمی تعاون پہلے سے شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد میں شامل ہے اور یہ پہلو پاکستان اور ایس سی او کے رکن ممالک کے مابین تجارت بڑھانے کا اہم ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں اور روس کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں اس لئے پاکستان کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایس سی او کانفرنس کے رکن ممالک سے طویل المدت معاہدے کرکے بھارت کی طرح سستا تیل اور گیس حاصل کرنے کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔ علاوہ ازیں پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اور سی پیک کا روٹ ایک ایسا تجارتی راستہ بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے جو پاکستان کو براہ راست وسطی ایشیا اور چین سے جوڑ سکتا ہے۔ اس سے ناصرف نقل و حمل کے اخراجات اور برآمدی و درآمدی اشیاء کی ترسیل کے وقت میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ سیاحت کے شعبے کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں برآمدات بڑھانےکیلئے ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرنے والے ممالک میں پہلے ہی ایک دوڑ جاری ہے۔ چین اور بھارت کے علاوہ بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی ایس سی او ممالک سے تجارت بڑھانے کیلئے سنجیدگی سے اقدامات کر رہے ہیں۔ان حالات میں وسطی ایشیا کی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کیلئے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پیداواری صلاحیت بڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنی مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانے اور ویلیو ایڈیشن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے خود کو تیار کرکے ہم شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو ٹیکسٹائل کی برآمدات بڑھانے کے ساتھ ساتھ طویل مدتی تجارتی تعلقات استوار کرکے اپنی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی کمپنیاں ابتدائی طور پر چینی کمپنیوں کیساتھ ملکر جوائنٹ وینچرز بھی شروع کر سکتی ہیں۔ اس سے جہاں پاکستانی برآمد کنندگان کو وسطی ایشیا تک رسائی میں آسانی میسر آئیگی وہیں ٹیکنالوجی ٹرانسفر سے پاکستان کی انڈسٹری مستقبل کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے بھی خود کو بہتر طور پر تیار کر سکتی ہے۔