• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! یاد کریں اور غور فرمائیں، موجود ملکی بحرانی کیفیت کے نزدیکی پس منظر کورونا19کی ہلاکت خیز وبا میں جب دنیا بھر میں معمول کا کاروبار زندگی مفلوج ہوگیا، مملکت خداداد پاکستان کی پہلے ہی پتلی اقتصادی حالت اس آفت میں ملکی اضطراب کا بڑا پلس تھا۔ تاہم اس عالمی ابتری میں بھی ہمارا یہ بڑا امتیاز قائم ہوا کہ تمام ممالک میں خوفناک وائرس کے جملہ خساروں سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رہنے کے ہنگامی چیلنج سے نپٹنے کے انتظامات میں ہم بطور مملکت و قوم دنیا کے پانچ چوٹی کے ممالک میں تین سے پانچ تک کی فلیکچویشن میںچوٹی کے بہترین منتظم رہے ،جس کی تعریف و تحسین متعلقہ عالمی اداروں خصوصاً ڈبلیو ایچ او سے ہوتی رہی۔ اس گڈگورننس کا آغاز سندھ میں بڑی تعداد میں بلند درجے کے وائرس زدہ ایرانی ماحول سےواپس آئے مسافروں کو ملک میں داخل ہوتے ہی فوراً ممکنہ حد تک الگ الگ کرکے کراچی اور سکھر تک پہنچا کر انہیں اسی محفوظ انفرادی حالت میں گھروں تک پہنچانے سے ہوا۔ وفاقی حکومت نے بلاتاخیر پوری دنیا کی تقلید سے ہٹ کر اپنی اسمارٹ لاک ڈائون اور ملک گیر بندش سے مختلف پالیسی ہنگامی بنیاد پر تشکیل دیکر تعمیرات اور متعلقہ منسلک تجارت، ٹیکسٹائل انڈسٹری اور دوسرے بڑے بڑے کاروباروں کی جزواً اور بار بار بندش اور معمول کی سرگرمی کے امتزاج سے ’’اسمارٹ لاک ڈائون‘‘ کی گلی محلے کی سطح تک کامیاب ترین احتراعی حکمت عملی اختیار کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔ گویا کاروبار زندگی کو ملک گیر سطح پر مفلوج نہیں ہونے دیا گیا۔ اس سے دوسرے ممالک بشمول یورپی و امریکی ممالک کے مقابل خوف و ہراسانی بھی کم تر درجے پر ہوئی اور پاکستان کم سے کم ہلاکتوں والے ممالک میں بھی ٹاپ مینجمنٹ کے کامیاب ترین ممالک میں رہا۔ بڑے شہروں میں تلاشِ روزگار کے متلاشی مزدوروں کی آمد ہوتی رہی، اور انہیں منزل پر آتے ہی طعام و قیام کیلئے شہروں سے پناہ گاہوں اور لنگر خانوں میںمنتقل کردیا گیا۔ دنیا کی میری ٹائم (بحری ٹریفک) سرگرمیاں مفلوج ہونے سے ملک تا ملک سپلائی چین ٹھپ یا انتہائی سست ہوگئی۔ اللّٰہ کا کرم یہ ہوا کہ ملک میں فوڈ سیکورٹی کا بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہوا۔ تاہم عالمی مہنگائی کی لہر نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، یہ وائرس کے بعد دوسری بڑی ابتری بن گئی۔ اڑھائی سالہ بحرانی حالات کے جاری ملکی بگاڑ کی مطلوب اصلاح کیلئے قومی ڈیزاسٹرپر ڈیزاسٹر کے اس ’’انٹر سٹنگ ٹائم‘‘ کا نزدیکی پس منظر بہتر فیصلہ سازی کا لازمہ ہے۔ کتنا عجب ہے کہ پاکستان اپنے متذکرہ گڈگورننس کے امتیازات کے باوجود بدترین ریاستی بحران میں مبتلا ہوگیا۔ دوران وبا اندرونی سپلائی چین سست اور محدود ہونے سے مہنگائی قابو میں نہ آئی۔پاکستان جیسے ’’سیاست زدہ‘‘ ملک کی اپوزیشن کو اور کیا چاہیے تھا، اس نے سیاسی اپنی سرگرمیاں جاری ہی نہیں رکھیں بڑھتی مہنگائی کو پروپیگنڈا ٹول بنا کر بڑا سیاسی اودھم مچایا، یہ جس شدت کا تھا اتنا ہی مہنگائی کا جواز منطقی تھا لیکن اسکو سپرنگ بورڈ بنا کر سیاسی اچھل کود جاری رہی، اسی کے نتیجے میں پی ڈی ایم کا اتحاد بنا، احتجاجی لانگ مارچ ہوئے اور بہت کچھ، اسکا مثبت پہلو یہ تھا کہ اسی کوویڈ میں ضمنی اور گلگت بلتستان کے الیکشن کرا کے دنیامیں مثال قائم کی گئی کہ عالمی وبا میں بھی ایک ملک میں یہ انہونی ہوسکتی ہے، گویا پاکستان کو اللہ کی تائید و نصرت سے اسکا مملکت خدا داد ہونا وبا میں بھی ثابت ہوا۔ برکات و ثمرات واضح نکلے جی ڈی پی بڑھنے (6.1تک) میں پھر چوٹی کے ملکوں میں رہا۔ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ، وبا کا زور ٹوٹا تو اپوزیشن نے عمران حکومت کیلئے بڑھتی مہنگائی کو بَلا بنا دیا اور اپنے لئے کامیاب ہتھیار۔ دوران وبا اتنی کامیابی سمیٹتے عمران خان ملکی خود داری اور آزاد و خودمختار تشخص کا ورد بھی کرتے رہے لیکن کمرتوڑ مہنگائی نے کوویڈ کا زور ٹوٹنے پر بھی اپوزیشن کے شدید احتجاج سے حکومت کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرا دیا۔

پاکستان کے موجود داخلی خلفشار کی بدترین شکل کے اس پس منظر میں عمران حکومت اور ملٹری ریلیشنز مثالی اور صورتحال کے عین مطابق رہے۔ ’’جنگوں کے نہیں امن و خوشحالی کے اتحادی‘‘ کے جاندا ر بیانیے پر خارجہ پالیسی کا اسمارٹ ڈوکومنٹ تیار ہوا، لیکن گرتی حکومتی مقبولیت اور اپوزیشن کے جارحانہ حملوں، آرمی چیف کی ایکسٹینشن ہونے یا نہ ہونے، پھر نہ ہونے کی صورت مکمل واضح ہونے پر کس کی تقرری؟ کی کج بحثی سیاست کے اس بگڑتے رنگ نےشدت پکڑی ہماری داخلی سیاست اتنی بگڑنے لگی کہ اندرونی ہاکس اور بیرونی مداخلت کاروں کی دھمکیوں (سرکاری طور پر تسلیم شدہ) کے بعد عسکری وسول قیادت کا ایک پیج دو ٹکڑے ہوگیا۔ ستم یہ ہوا کہ ہارس ٹریڈنگ اور چمک سے وفاقی حکومت کا خاتمہ صوبائی حکومتوں کا کلہ مضبوط رکھنے اور انہیں بھی اکھاڑنے کی سیاسی تگ و دو لیکن جواباً بغیر کسی سیاسی مہم اور پی ٹی آئی قیادت و پارٹی کے مایوسی میں غرق ہونے کے باوجود رجیم چینج کے داخلی و بیرونی سیاسی کھلواڑ کو ملک بھر کے عوام نے رجیم چینج ہوتے ہی بھانپ لیا اور رمضان المبارک کی آخری راتوں میں ہی اسکا باکمال اظہار پرامن شہر شہر، اور قصبہ قصبہ کردیا۔ مہنگائی کی ابتری ثانوی اور ہارس ٹریڈنگ کی بحالی اور حکومت اکھاڑ آپریشن معمول کیخلاف عوام کو برداشت نہ ہوا، نہ آنیوالے دنوں میں وہ اسے ہضم کرپائے۔ پی ڈی ایم کی حکومت سنبھالنے کی ہارڈ شپ بھی، ’’لوآپ اپنے دم میں صیاد آگیا ‘‘والی بات تھی۔ ہارس ٹریڈنگ سے ہتھے چڑھی حکومت چھوڑیں تو سر چڑھے احتساب کا دھڑکا کہ نوبت فرد جرم تک آگئی تھی۔ ہارس ٹریڈنگ اورینٹڈ حکومت پر براجمان ہوں تو عوامی تیور واضح تھے کہ 40 سالہ روایتی سیاست کی جاری و ساری کمائی ختم۔ ایک دھڑا چیختا رہا کہ بہتر تھا کہ مقبولیت کھوتی حکومت کو آئینی مدت کے الیکشن سے فارم 45والی اصلی حکومت بناتے، سوشل میڈیا کی بمباری سے بھی بچے رہتے۔ خان حکومت غیر مقبول ہوتی نہ جانے کہاں پہنچتی۔ اس سارے پس منظر میں 8فروری کو الیکشن۔24 کے ’’رزلٹ پلٹ آپریشن‘‘ کی مسلط کامیابی نے تو عوام سے کوسوں دور کردیا۔ آخری سہارا عوام کیلئے عدلیہ کا ہی رہ گیا تھا۔ ’’نگران حکومت‘‘ کی اشیر باد سے اسے بھی اپنا سہولت کار بنا لیا گیا تھا۔ جتنا کھلواڑ مچ سکتا تھا سپریم کورٹ میں مچادیا، تجربہ تو تھا۔ اب انتہا کرنے میں شانہ بشانہ کردار،لیکن پھر آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔ قاضی آئوٹ، الیکشن ڈرامہ ٹھاہ، آئینی عدالت نامنظور، تیسرے سینئر جج چیف جسٹس بنے ہیںچیف جسٹس نے بڑی سپریم کورٹ کی اصلاح کیلئے جسٹس منیب کی جگہ بنا کر اور جسٹس منصور سے اپنی ذہانت اور صبر سے بنچ بنانے والی کمیٹی سے اپنے بڑے پیشہ ورانہ کردار کی راہ نکال لی۔ چیف ہونا تو ایک فاضل ذمے داری ہے، اصل اور برابر کا کردار ججی کا ہی ہے، جس میں جسٹس منصور بنچ خصوصی نشستوں کا فیصلہ بعینہ آئین دیکر قوت اخوت عوام میں سرخرو ہو چکے اور آئین کی عملداری بھی۔ یوں سپریم کورٹ کی تشکیل نو کی خشت اول بظاہر تو درست اور سیدھی رکھی گئی، سو آنے والے پیشہ ورانہ کردار کی ندرت بھی یقینی ہوگی۔ رہی متنازع ترین آئینی بنیادی ڈھانچے سےچھیڑ چھاڑ بذریعہ پارلیمان ۔ فارم 47 یہ لا اینڈ جسٹس کی باڈی آف نالج کی اسپیشلائزیشن ’’کانسٹی ٹیوشنل لا‘‘ کے ’’آزاد عدلیہ‘‘ کے نالج سے متصادم۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی جیسے اعلیٰ تعلیمیافتہ جج اپنے فیصلوں میں ’’اطلاق علم‘‘ کو نظر انداز کرینگے۔ تشکیل آئین خود اسی کی پیروی میں ہوتی ہے۔ جیسا کہ گزشتہ آئین نو میں واضح کردیاگیا ہے کہ پارلیمان کسی آئینی ترمیم یاقانون کیلئے آئین کے بنیادی ڈھانچہ میںقطع وبرید نہیں کرسکتی۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین