• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کیاہورہاہے کیا ہو چکا ہے اور کیا ہونے والا ہے؟ اس حوالے سے بین الاقوامی میڈیا میں خبریں بہت کم اور چھن چھن کر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی دنیاوہاں کی صحیح صورت حال سے بے خبربھی ہے اور بے حس بھی۔ پاکستانی میڈیا کے لئے اندرون ملک دہشت گردی کی لرزہ خیز خبریں ہی اتنی ہیں کہ کنٹرول لائن کے اس پار کی صحیح صورت حال اجاگر کرنے کے لئے اس کے صفحات اور نشریات میں کبھی کبھار ہی جگہ بنتی ہے۔ اس مجبوری،کے باعث پاکستان کے عوام بھی بہت کم جانتے ہیں کہ وہاں پاکستان کے دل دادگان اور آزادی کی جدوجہد کرنے والوں پر کیا بیت رہی ہے۔ ان کے دلوں میں ارتعاش اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بھارتی فوج کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر آزادکشمیر کے دور دراز دیہات کے لوگوں اور ان کے گھربار کو گولہ باری کا نشانہ بناتی ہے اور ہماری سکیورٹی فورسز کے مورچے بھی اس کے حملوں کی زد میں آتے ہیں۔ اس پر پاک فوج جوابی کارروائی کرے تو بھارت شور مچادیتا ہے۔ جس پر پوری دنیا کے کان کھڑے ہو جاتے ہیںکنٹرول لائن کی یہ خلاف ورزی کیا ہے؟ عام طور پر اس لائن کے قریب واقع دیہات کے لوگ لکڑیاں جمع کرتے گھاس کاٹتے یا مویشیوں کو چراتے ہوئے غلطی سے بھارتی مورچوں کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو بھارتی فوج ان پر فائر کھول دیتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ یہ کشمیری مجاہدین ہیں جو کنٹرول لائن عبور کرکے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔ بھارتی فائرنگ سے آئے روز بے گناہ دیہاتی شہید یا زخمی ہوتے ہیں۔ ان کے مال مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں اور گھروں کو نقصان پہنچتاہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کنٹرول لائن کی حفاظت پرمامور پاک فوج کے زبردست اقدامات کے باوجود کچھ لوگ چوری چھپے اپنے عزیزواقارب کی خبر گیری کے لئے دوسری طرف چلے جاتے ہوں اور ان کی حالت زار دیکھ کر کچھ جہاد میں شرکت کے لئے وہاں رک بھی جاتے ہوں مگر کنٹرول لائن کے دونوں طرف دراندازی روکنے کے لئے جو سخت اقدامات کئے گئے ہیں ان کی بدولت اس طرح کی آمدورفت تقریباًناممکن ہے۔ اب تو بھارتی فوج ’گھس بیٹھیوں‘ کو روکنے کے لئے پونچھ سیکٹر اور دوسرے حساس علاقوں میں ہزاروں سی سی ٹی وی کیمرے لگا رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے سیکڑوں ٹاورز لگائے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ مقبوضہ علاقوں کو آزادکشمیر اور پاکستان سے الگ کرنے کیلئے دیوار برلن کی طرز پر 198کلومیٹر لمبی، 10میٹر اونچی اور135فٹ چوڑی دیوار کی تعمیر پر بھی کام ہورہاہے۔
کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کے الزامات تو محض دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ اصل صورت حال خود بھارتی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق یہ ہے کہ کشمیری مجاہدین کی سرگرمیوں کا مرکز کنٹرول لائن نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کے اندرونی علاقے ہیں۔ جہاں بھارت نے آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے 8لاکھ سے زائد فوج تعینات کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں مقبوضہ کشمیر کو کرہ ارض کا سب سے بڑا’’فوجی علاقہ‘‘ قراردیا گیا ہے۔ 1947-48میں جموں اور دوسرے علاقوں میں کشمیری مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا اور لاکھوں مرد عورتیں اور بچے شہید ہوئے وہ ایک الگ داستان ہے جو اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ مگر پچھلے 25سال میں کشمیریوں کیساتھ جو کچھ ہوا وہ رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق 1989 سے دسمبر 2013 تک 94 ہزار 7 سو 18 کشمیریوں کو مختلف فوجی کارروائیوں میں شہید کیا گیا۔ بعض غیرجانبدار ادارے تو یہ تعداد ایک لاکھ سے زائد بتاتے ہیں۔ اس دوران 22 ہزار 7 سو 78خواتین بیوہ ہوئیں اور دس ہزار98کی بے حرمتی کی گئی۔ ایک لاکھ بچے یتیم ہوئے۔ شہدا میں 70 ہزار نوجوانوں کے علاوہ خواتین بوڑھے اور بچے بھی شامل ہیں متاثرہ افراد کے والدین اور دوسرے لواحقین کی تنظیم کے مطابق گزشتہ 25 سال میں دس ہزار سے زائد کشمیری دوران حراست لاپتہ ہوئے اور کسی کو معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا انہیں شہید کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کیا جا چکا ہے۔انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24سال سے کسی عورت کا لاپتہ شوہر واپس نہیں آیا اور اسے یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ وہ بیوہ ہو چکی ہے تاکہ وہ دوسری شادی کر سکے۔ مختلف علاقوں میں سیکڑوں اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ وائس آف وکٹمز کے مطابق حال ہی میںسمبلی اور بٹ محلہ کے علاقوں کے دو گمنام قبرستانوں میں 130 افراد کی اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ مردوں کی شناخت نہیں ہو سکی کیونکہ ان کی لاشیں بری طرح مسخ کر دی گئی تھیں۔ مقبوضہ کشمیر کے22اضلاع میں سے صرف ضلع بارہ مولا میں2ہزار 7سو اجتماعی قبروں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد خواتین کے شوہر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں مگر انہیں بیوہ قرار نہیں دیاجارہا۔ علما کے ایک پینل نے حال ہی میں فتویٰ دیا ہے کہ 4سال سے زائد عرصہ تک لاپتہ رہنے والے شوہروں کی بیویاں دوسری شادی کر سکتی ہیں سری نگر کی حکومت نے لاپتہ افراد کی بیویوں کو دو سو روپے ماہانہ وظیفہ دینے کا ’تکلف‘کیاہے مگر اس کے لئے بنک اکائونٹ کھولنے کی ضرورت ہے اور اکائونٹ کھولنے کے لئے ڈیتھ سرٹیفکیٹ چاہیئے جو کسی کو نہیں دیا جا رہا کیونکہ اس سے لاپتہ شخص کے زیرحراست مارے جانے کی تصدیق کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے جس کے لئے حکومت تیار نہیں۔ گویا دوسوروپے ماہانہ بھی کسی عورت کو نہیں مل سکتے۔ اس کی وجہ سے یہ مظلوم عورتیں بے بسی کی زندگی گزاررہی ہیں۔ دوسری طرف سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں وادی اور جموں کے مختلف شہروں میں بے گناہ شہریوں کے قتل کے واقعات عام ہیں جن کے خلاف ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے بھی روزمرہ کا معمول ہیں۔ حریت پسند رہنما سید علی گیلانی، مولوی عمر فاروق، شبیر احمد شاہ، یٰسین ملک اور دوسروں کو آئے روز گرفتاریوں اور نظربندی کا سامنا رہتا ہے۔ اکثر انہیں نماز جمعہ کے لئے بھی باہر نہیں نکلنے دیاجاتا تاکہ عوام سے ان کا رابطہ منقطع رہے۔ بانڈی پورہ،کٹھوعہ، شوپیاں، بارہ مولا سمیت اہم شہر اور بڑے قصبے اکثر کرفیو کی زد میں رہتے ہیں لوگوں کے گھروں میں چھاپے مارے جاتے ہیں اور مزاحمت پر جان لینے سے بھی گریز نہیں کیاجاتا۔ ظلم و جبر کا جو وطیرہ ڈوگرہ حکمرانوں نے اپنارکھاتھا اس کا تسلسل آج بھی جاری ہے مگر ان تمام سختیوں اور انسانی حقوق کی پامالی کے باوجود آزادی کی تحریک کو دبایانہیں جاسکا۔
تازہ ترین