• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے سات ارب ڈالر قرض کی منظوری اور دو ارب ڈالر کی پہلی قسط ملنے کے بعد حکومت کی طرف سے 1300ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے کی کوششیں مزید تیز ہو گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس مالیاتی پروگرام کے اہداف کو سنجیدگی سے پورا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پہلی سہ ماہی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے محصولات کی وصولی میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکس نیٹ کو توسیع دینے کیلئے ’’نان فائلر‘‘ کی کیٹیگری ختم کرنے کے فیصلے سے بھی ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے شہریوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم آئی ایم ایف پر متواتر اور مستقل انحصار پاکستان کی معیشت کو درپیش ایک مستقل بحران کی نشاندہی کرتا ہے جس میں مالیاتی خسارے، بلند افراط زر اور ادائیگیوں کے توازن کے مسائل شامل ہیں۔یہ وہ مسائل ہیں جنہیں وقتی اقدامات سے حل نہیں کیا جا سکتا، اس کیلئے مستقل مزاجی اور عزم کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی طرف سے کم از کم معاشی ایجنڈے پر متفق ہو کر ان اقدامات کی مشترکہ اونر شپ لینا بھی ضروری ہے۔ اس سے ناصرف ہمارے لئے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پر عمل کرنا آسان ہو جائے گا بلکہ یہ اقدام ترقی کیلئے سازگار ماحول کو فروغ دینے، پبلک سیکٹر کی کارکردگی کو بڑھانے اور نجی شعبے کی ترقی کو فروغ دینے میں بھی مددگار ثابت ہو گا۔ پاکستان کے پاس اپنے معاشی منظر نامے کو تبدیل کرنے اور دیرپا معاشی استحکام کی بنیاد رکھنے کا یہ منفرد موقع ہے۔ اگر ضروری معاشی اصلاحات کے نفاذ اور پالیسی سازی یا ادارہ جاتی کمزوریوں کو دور کر لیا جائے تو پاکستان کو آئی ایم ایف پر انحصار اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لینے کی دلدل سے نکالا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے معاشی ماہرین نے بھی نشاندہی کی ہے کہ معاشی استحکام کو بحال کرنے کیلئے گزشتہ سال کے دوران اختیار کی گئی پالیسیوں کا نفاذ بہت اہم رہا ہے۔ اس وقت معیشت میں شرح نمو واپس آ گئی ہے، پچھلے سال کے مقابلے میں زرمبادلہ کے ذخائر دوگنا ہونے کے ساتھ بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی آئی ہے۔ اسکے علاوہ مہنگائی میں اضافے کی شرح میں بھی واضح کمی آئی ہے۔ تاہم اس پیش رفت کے باوجود اب بھی پاکستان کا معاشی بحران یا چیلنجز ختم نہیں ہوئے۔ انرجی ٹیرف میں مسلسل اضافے کی وجہ سے انڈسٹری کی پیداواری لاگت حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ بجلی اور گیس کے بھاری بلوں کی ادائیگی کے باعث عام شہریوں کی قوت خرید مسلسل کم ہو رہی ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں سست روی کی وجہ سے ریٹیل، ہوٹلنگ اور سروسز کے شعبہ جات کی ترقی متاثر ہوئی ہے۔ ان چیلنجز کا سامنا کرنے اور ملک کو معاشی طور پر ترقی دینےکیلئے پاکستان کو ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے لئے گئے قرضہ جات یا مالیاتی پیکیج غیر پیداواری شعبوں یا سرگرمیوں پر خرچ نہ ہوں بلکہ انہیں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور کاروباری شعبوں کو کم شرح سود پر آسان قرضوں کی فراہمی کیلئے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس سے جہاں ان قرضوں کی واپسی کیلئے مزید قرض لینے کی ضرورت ختم ہو جائے گی وہیں ان کی مدد سے ہم اپنی معیشت کو بھی مستحکم کر سکیں گے۔ تاریخی طور پر ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرض لینا بری بات نہیں بلکہ اس کا غلط یا غیر پیداواری استعمال غلط ہے جسکی وجہ سے قرض خواہ ممالک کے شہریوں کو بھاری ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حکومتوں کو عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط ماننا پڑتی ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کی سطح پر قرضوں کے حجم میں بتدریج کمی لائی جائے اور انتظامی اخراجات کو مؤثر طریقے سے کم کرنے کیلئے سخت مالیاتی کنٹرول کی پالیسی اپنائی جائے۔ اس جامع حکمت عملی کی بدولت ناصرف اسٹیک ہولڈرز کا اعتماد بحال ہو گا بلکہ طویل مدتی استحکام سے حکومت کی دیگر بڑے معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت بھی بہتر ہو گی۔ اس کیلئے بینکوں کی شرح سود میں مزید کمی کے علاوہ شرح مبادلہ کی پالیسیوں کو مستحکم رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدی سیکٹرز زیادہ اعتماد کے ساتھ برآمدات بڑھانے کیلئے اپنی منصوبہ بندی کر سکیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر کا موثر انتظام اس حوالے سے عالمی اقتصادی اتار چڑھائو کے سامنے استحکام اور لچک کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی معیشت کا حصہ بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری ٹیکس اکٹھا کرنے کی موجودہ استعداد ملک کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگرچہ حکومت نے رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں 1300ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے کیلئے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود کاروباری اداروں اور تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ اسکے باوجود اگر حکومت یہ ہدف حاصل کر بھی لے تو اسے اپنے اخراجات اور بیرونی ادائیگیوں کے لئے مزید 700ارب روپے کی ضرورت رہے گی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کی معاشی سپورٹ کے بغیر ایک سال کے اخراجات پورے کرنے کیلئے کم از کم 2000 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہدف موجودہ ٹیکس گزاروں پر مزید بوجھ ڈال کر حاصل کرنا ناممکن ہے اس کیلئے کاروبار کرنے کے ماحول کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ کی توسیع، بلیک اکانومی کا خاتمہ اور اسمگلنگ کی مکمل روک تھام ناگزیر ہے۔

تازہ ترین