آج ارادہ تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی ریٹائرمنٹ پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کا تھا لیکن پہلے سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں حامد خان گروپ کی شکست اور عاصمہ جہانگیر گروپ کی فتح کے وکلاء برادری اور پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک پر اثرات کا جائزہ۔ چھبیسویں آئینی ترمیم پر پی ٹی آئی کا غم و غصہ چھپائے نہیں چھپتا، مجبوریاں نہ ہوتیں تو شاید وہ مولانا فضل الرحمن پر بھی زبان طعن دراز کرتے ۔ حامد خان ایڈوکیٹ 29اکتوبر کو سپریم کورٹ بار کی چیئرمینی حاصل کرتے ہوئے26 ویں ترمیم کے خلاف وکلاء کی احتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ دے رہے تھے، سلمان اکرم راجہ کی شعلہ بیانیاں توسب پربازی لے گئیں کہ جیسے 26ویں ترمیم نے جیسے آئین قانون اور انصاف کا کریا کرم کر ڈالا ہے۔ ان حالات میں وکلا برادری نے عاصمہ جہانگیر گروپ کے میاں رؤف عطا کو چیئرمین سپریم کورٹ بار منتخب کرتے ہوئے گویا اعلان کر دیا کہ’’ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا... دیکھا اس بیماریء دل نے آخر کام تمام کیا‘‘ اب ان احباب کو سمجھ نہیں آرہی کہ کسے دوش دیں؟ ان کے معتوب عدالتی چیف باوقار ریٹائرمنٹ کے بعد لندن کی مڈل ٹیمپل بار کے بینچر بن کر عالمی ایوارڈو توقیر حاصل کر رہے ہیں جبکہ دوسرے طاقتور ادارے کے چیف پر بھڑاس کا طوفان قہر درویش کی طرح بر جان درویش ہی رہ جاتا ہے۔ ایسے میں پارٹی چار ٹکڑوں میں بٹتی دکھتی ہے شاید اسے سنبھالنے کیلئے ہی اندر خانے مک مکا کرتے ہوئے نئی قیادت بشری ٰبی بی کا ظہور ہوا ہے، یوں گنڈاپور کا پلڑا براستہ اسٹیبلشمنٹ بھاری رہے گا، ویسے اس میں قباحت بھی کیا ہے؟ جب بیگم صاحبہ پر سب کا ایکا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ پارٹی میں گروپنگ بھی دب جائے گی، شاید بہنیں بھی انکی بیعت کر لیں۔ لیڈروں کے قید ہونے پر ان کی بیگمات پہلے بھی اس نوع کا فریضہ ادا کرتی رہی ہیں، خان عبدالولی خان بھٹو کی حکمرانی میں گرفتار ہوئے تو ان کی بیگم نسیم ولی خان میدان میں یوں نکلیں کہ قیادت کا حق ادا کر دیا۔ اسی طرح بھٹو قید ہوئے تو نصرت بھٹو ان کی نصرت کو نمودار ہوئیں۔ نواز شریف قید ہوئے تو بیگم کلثوم نواز نے حکمرانوں کو ڈیل پر مجبور کرنے کیلئے احتجاجی تحریک کا حق ادا کر دیا۔ آج وقت نے یہ ذمہ داری بشریٰ صاحبہ پر ڈال دی ہے تو وہ برقعہ سمیت اس کا حق ادا کریں گی اور یہ ثابت کر کے دکھائیں گی کہ حجاب مسلم خواتین کی ترقی اور جدوجہد کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ وہ پی ٹی آئی کے نوجوانوں کی قیادت کرتے ہوئے تحریک چلائیں گی، یوں اپنے قائد کو اڈیالہ جیل سے باہر لے آئیں گی، فی الحال تو یہ احتجاج لندن میں ہمارے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف کیا جا رہا ہے جس کی قیادت بانی پی ٹی آئی کے یار غار زلفی بخاری فرما رہے ہیں اور کارکنان زلفی بخاری سے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کو اعتماد میں لے کر ایک دن ضرور ٹرمپ پر بھی اثر انداز ہو جائیں گے بشرطیکہ ٹرمپ پانچ نومبر کو ہونے والے الیکشن جیت گئے۔ ایسی صورت میں بیس جنوری بہت زیادہ دور نہیں لگے گی جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارت کا حلف اٹھائیں گے اور وائٹ ہاؤس میں بیٹھیں گے تو کسی دن انکے داماد جیرڈ کشنر انہیں یاد دلائیں گے کہ پاکستان میں انکا کرکٹ کا کھلاڑی دوست حکومتی قید میں ہے، اس پر صدر ٹرمپ حکومت پاکستان کو حکم جاری فرمائیں گے کہ آپ کی عدالتیں جو بھی کہتی ہیں آپ میرے دوست کو رہا کریں، اسکے بعد انکی رہائی کو کوئی نہیں روک سکے گا پھر بھی اگر پاکستان میں طاقتوروں نے کوئی ایسی ویسی رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تو ٹرمپ کہیں گے کہ تم لوگ ہمیشہ امریکا سے یہ گزارش کرتے رہے ہو کہ ہماری پاکستانی خاتون عافیہ صدیقی کی سزا معاف کرتے ہوئے اسے رہا کرو تو ٹھیک ہے ہم ڈیل کرلیتے ہیں تم ہمارا بندہ چھوڑ دو ہم آپ کی بندی چھوڑ دیتے ہیں۔ جرأت قلندر بخشؔ نے کہا تھا کہ ’’اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی ...اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی‘‘ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب No ہی ہوا کیونکہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی، یہ ٹیڑھی کھیر اس لیے بھی سیدھی ہوتی نہیں دکھتی کہ پانچ نومبر کے انتخابات میں ٹرمپ کی جیت کے امکانات خاصے کم ہیں کملا دیوی کی جیت کے چانسز زیادہ ہیں جبکہ آپ لوگوں نے اپنے سارے انڈے ٹرمپ کی ٹوکری میں ڈال رکھے ہیں حالانکہ ٹرمپ جیسے لاابالی لیڈر کی غیر یقینی جیت کے علاوہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ آپ کے لیڈر کو چھڑوانے کیلئے اتنا بے چین ہو جائیگا جبکہ سفارت کاری میں حکومتیں حکومتوں سے تعلق کو ترجیح دیتی ہیں نہ کہ افرادسے تعلقات کو۔ ہمارے پی ٹی آئی کے دوستوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی رہائی کیلئے مطلوبہ عوامی احتجاج کا دباؤ موثر نہیں بنا پا رہے ۔ 26ویں ترمیم کے بعد سب نے 29 اکتوبر کو سپریم کورٹ بار کی صدارت جیت کر جس وکلاء تحریک کا خواب دیکھا تھا وہ تو چکنا چور ہو گیا، اب پی ٹی آئی کا ایک لیڈر میڈیا میں یہ کہتا پایا جا رہا ہے کہ اگر تین لاکھ افراد کسی طرح میرے ساتھ باہر نکل آئیں تو میں ڈی چوک کے راستے حکومت پر ایسے ہی حملہ آور ہوجاؤں گا جس طرح بنگالی سٹوڈنٹس ڈھاکہ میں ہوئے تھے اس کے بعد ہم اپنے خان کو اڈیالہ جیل سے ڈائریکٹ پرائم منسٹر ہاؤس لے آئیں گے۔ یہ کتنا خوبصورت خواب ہے، خواب دیکھنے چاہئیں، چاہے دن کے اجالے میں ہی ہوں۔