پاکستان کے حال ہی میں ریٹائر ہونیوالے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے ساتھ بدسلوکی صرف قابل مذمت ہی نہیں بلکہ شرمناک ہے۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس کی گاڑی پر حملہ اور انکے بارے میں نازیبا نعرے بازی پاکستان پر حملے کے مترادف ہے۔ ذرائع کے مطابق ریٹائرڈ چیف جسٹس آف پاکستان پر حملہ ایک منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ہوا ہے جس کیلئے کچھ دن پہلے باقاعدہ پمفلٹ شائع اور تقسیم کیے گئے تھے جن میں حملے کی جگہ اور وقت کا انتخاب بھی کیا گیاتھا۔ حملے کے وقت فائز عیسیٰ کی بیگم بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ وہ جس گاڑی میں سوار تھے وہ پاکستان کی ملکیت سرکاری گاڑی تھی۔ اس حملے سے صرف ریٹائرڈ پاکستانی چیف جسٹس کی نہیں بلکہ پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔ یہ کوئی نا معلوم نہیں بلکہ واضح اور معلوم پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور پاکستانی نژاد تھے۔ اس حملے کے منصوبہ ساز بھی پاکستانی اور تحریک انصاف کے ’’ رہنما ‘‘ بتائے جاتےہیں۔اسی گروہ نے اس سے پہلے لندن ہی میں متعددبار میاں نواز شریف پر حملہ کرنے کی کوشش اور انکے خلاف انتہائی بیہودہ نعرے بازی کی ہےاورمسلم لیگ(ن)کی خواتین اور مردارکان کو لندن میں ہی ہراساںکیا اور انکے خلاف غلیظ نعرے بازیاں بھی کیں لیکن کسی کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔اس کے علاوہ اسی جماعت کے لوگوں نے معزز پاکستانی جج صاحبان کی تصاویر کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبویﷺ میں مسلم لیگ (ن) کے اس وقت کے صدر میاں شہباز شریف اور انکے وفد کے ارکان جن میں خواتین بھی شامل تھیں کیخلاف نہ صرف بیہودہ نعرے بازی کی گئی بلکہ انکو باقاعدہ ہراساں کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی۔ سعودی عرب نے اگرچہ ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی لیکن پاکستان میں جب اس واقعہ کے خلاف قانونی کارروائی کی استدعا کی گئی تو کہا گیا کہ یہ واقعہ پاکستان سے باہر ہوا ہے اس لئے ان افراد کیخلاف پاکستان میں قانونی کارروائی نہیں ہوسکتی حالانکہ ملوث افراد پاکستانی ہی تھے۔لندن میں چیف جسٹس(ر) قاضی فائز عیسیٰ پر حملے میں ملوث افراد کیخلاف پاکستانی سفارتخانہ کی طرف سے برطانیہ کے ہوم ڈیپارٹمنٹ میں درخواست برائے مقدمہ داخل کی گئی ہے جو ایک طویل طریقہ کار ہے، پاکستانی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اعلان کیا ہے کہ حملے میں ملوث پی ٹی آئی کارکنان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کرکے انکی پاکستانی شہریت ختم کردی جائیگی۔ شاید ریاست پاکستان یہی کچھ کرسکتی ہے حالانکہ حملہ آوروں کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ انکے پاس برطانوی شہریت ہے اور ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو نہ کبھی پاکستان آئے ہیں اور نہ آتے ہیں۔اس سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں موجود پی ٹی آئی کے’’رہنماؤں‘‘ کو اس حملے کے بارے میں قبل از وقت معلوم تھا۔ اس واقعہ سے دوتین دن قبل ہی ایک نجی ٹی وی چینل پر پی ٹی آئی کے ایک وکیل رہنما نے کہاتھا کہ لندن میں جو نواز شریف کے ساتھ کیا گیا تھا اس سے زیادہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کےساتھ ہونیوالا ہے۔ لیکن ریاست نے تاحال پاکستان میں رہنے والے اس واقعہ کے منصوبہ سازوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔
سوائے گرفتاریوں اور ضمانتوں کے ریاست پاکستان نے ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود نومئی کے اندوہناک اور شرمناک واقعہ کے ماسٹر مائنڈ، سہولت کاروں اور ان واقعات میں ملوث افراد میں سے کسی ایک کو بھی کوئی عبرتناک تو کیا بے عبرت سزا بھی نہیں دلوائی ۔ پی ٹی آئی والے ایسی آسمانی مخلوق لگتے ہیں کہ کسی بھی تخریبی کارروائی میں ملوث کسی فرد کو معمولی سزا بھی نہیں دی جاسکتی نہ کوئی سزا دلواسکتا ہے۔ سارا ڈرامہ یہ ہے کہ پکڑ دھکڑ ہوتی ہے، کمزور کیسز اور برائے نام پراسیکویشن کی وجہ سے ملوث افراد یا تو سرے سے کیس سے ڈسچارج کردیئے جاتے ہیں یا پھر تھوک کے حساب سے ضمانتیں مل جاتی ہیں۔ بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتوں پر چند دن کی پابندی کے بعد اب ملاقاتوں کی اجازت دیدی گئی ہے اور جیل میں رہتے ہوئے ریاست کی نرمی ، سہولت اور مہربانی سے بانی کی پارٹی پر گرفت جو کچھ ڈھیلی ہوگئی تھی پھر مضبوط ہوگئی ہے۔ یہ بات بھی زبان زد عام ہےکہ وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ برا بر رابطہ ہے اور وہ بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک پل یا سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔ مبینہ طور پر بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ اور بہنوں کی رہائی میں علی امین گنڈا پور کا بھی ایک کردار ہے۔ اسلام آباد میں یہ افواہیں بھی گرم تھیں کہ گزشتہ دنوں امریکی حکام نے اسلام آباد میں بعض اہم ملاقاتیں کی ہیں جن کی بدولت یہ رہائیاں عمل میں آئی ہیں۔ یہ افواہیں مصدقہ ثابت ہوئیں کیونکہ امریکی ترجمان نے نہ صرف ان ملاقاتوں کی تصدیق کی بلکہ کسی حد تک انکی تفصیل بھی میڈیا کے ساتھ شیئر کی ہے۔
مبینہ طور پر پاکستان پر امریکی دباؤ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے۔ پی ٹی آئی اور بانی کو ڈھیل بھی شایداسی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ ڈھیل اور ڈیل امریکہ اور برطانیہ میں طاقتور یہودی لابی، جس کا وہاں کی حکومتوں میں بہت اہم اثر و رسوخ ہے، کہ دباؤ کی وجہ سے دی جارہی ہے۔ اگر یہ سب صحیح ہے تو بانی پی ٹی آئی کا نعرہ ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ درست ثابت ہورہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی، معاشی اور ریاستی فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور پاکستان کاکام ان پر عملدرآمد کرنا ہے۔ اس کا جواب ریاست ہی دے سکتی ہے کہ ملک کے ساتھ یہ کھلواڑ کب تک ہوگا یا حسب معمول وہی پر اسرار خاموشی ہی رہے گی۔