حاملِ متفقہ آئین،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عشروں سے ڈگمگائے سیاسی و انتخابی اور اسکے منقطع ہونے سے مسلسل سیاسی عدم استحکام کی کیفیت مملکت کا مستقل روگ بن گئی ہے۔ یہ صورت پاکستان کی ترقی اور تیز تر ارتقائی عمل میں پہاڑسی رکاوٹ بن گئی ہے۔ ہمارے طاقتور کرتا دھرتا اور عوامی تائید کے زور سے تگڑی بگڑی سیاسی قوتیں ایسی حالت عبور کرنےکیلئے صراط مستقیم بشکل پیروی آئین کی طرف جلد لوٹنے کی بجائے خود ہی ارتقا کو ٹیڑھی میڑھی راہوں پر ڈال کر اور تارکِ دستور ہو کر طرز سیاست اور گورننس کے نت نئے تجربات کرتے انجان راہوں پر نکل جاتی ہیں، یہ سفر ٹیڑھا میڑھا کم علمی اور خبط اپنے عقل کل ہونے کے ضبط سے نادانستہ بھی ہوتا رہا اسے دانستہ بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ کون کرتا ہے؟ وہ جو ریاست کو اپنا کاروبار زندگی بناکر ذاتی و گروہی اغراض کیلئے اس کے ذریعے حصول اقتدار و اختیار کو قوم کی نہیں اپنی ہی منزل بنا لیتے ہیں ،آئین سے بیزار ایک وہ طبقہ بھی ہے جو ماورائے آئین اختیار اور ناجائز دولت و شہرت سے سیاست و حکومت پر قابض ہونے کی تگ ودو میں رہتا ،اسے تباہ کن سیاست میں تبدیل کر دیتا ہے یہ بھی نادانستہ اس خناس میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خدمت وطن و عوام کے جھوٹے دعوئوں کو ڈھال بنا کر آئینی قومی اہداف فلاح عامہ و استحکام مملکت کے نام پر اولیت خلاف آئین اپنے او رگروہی حصول اغراض و مقاصد کی ماردھاڑ سیاسی مہم جوئی کو دیتا اسے اپنا مشن یا سیاست سمجھنے لگتا ہے یہ دھندہ گمراہی و کم علمی سے بھی ہوتا ہے اور سب کچھ جانتے ہوئے بدنیتی سے بھی۔
قارئین کرام ! آئینی پیروی سے حصول و تبدیلی اقتدار کے مہذب اور جمہوری طریق کی بجائے وائے بدنصیبی ہم اپنے بزرگوں کی بے مثال علمی و نظریاتی تحریک اور عبادت جیسی سیاست سے حصول پاکستان جیسی کٹھن منزل کے حصول کے بعد یہ کامیابی سنبھالنے، بڑھانے اور آنے والی نسلوں کے حوالے کرنے کے طریق عظیم کو ترک کرکے اپنے دائروں جماعتوں (اداروں) کے اسیربن کر خدمت وطن و قوم کی بجائے انفرادی و گروہی و تنظیمی غلبے کی گمراہی پر چل پڑے ۔ سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ ہم مملکت خداداد کے ہیومن ریسورس (بشمول بڑی آبادی پر شباب کے غلبے قابل اطمینان دفاعی تحفظ محنت و آئی کیو لیول) ارضی قدرتی وسائل، کثیر الجہت ماحول و موسم، جائے وقوع و جملہ جغرافیائی سیاسی و اقتصادی پہلوئوں اور کثیر الثقافتی بحوالہ سب کلچر (کلچرل ڈائیورسٹی) سے لبریز رحمتوں کے کم ترین اور جزواً استعمال سے بھی جلد اور بڑی بڑی کامیابیاں بھی حاصل کیں لیکن بالائی سطح پر ریاستی ڈھانچے میں پائی جانے والی بیڈ گورننس کے جملہ امراض اور ان کے علاج و ریاستی و حکومتی صحت و تندرستی کی سکہ بند ضمانت، سماجی معاہدہ (آئین) کی تیاری اور ہونے کے بعد ہمارے منتخب او ر طاقتور ارباب و اختیار کے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اس سے وفا نبھانے کے عہد میں بری طرح اور مجرمانہ ناکامی نے ہماری حاصل کامیابیوں کو بھی ناکامی بلکہ ڈیزاسٹر، المیوں اور انتشار و خلفشار میں تبدیل کر دیا کہ متفقہ دستور (بطور متحدہ سماجی سمجھوتہ) ریاستی آئین ہی آج کی جدید دنیا میں عوامی خوشحالی و امن، سیاسی و اقتصادی استحکام اور تحفظ وطن اور ترقی مسلسل کی ضمانت اور مہذب طریق ہے اور ہمارے تیار اور رائج دستور کو تو یہ برتری اور امتیاز حاصل ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کا اقتدار اعلیٰ احکامات الٰہی میں مرتکز ہے اس کی ریاستی سطح پر پیروی بمطابق آئین مملکت منتخب نمائندوں کے ذریعے پالیسی و فیصلہ سازی اور اس پر احتسابی نظام کے چیک اینڈ بیلنس اور سماجی عدل وانصاف کو آزاد و مکمل غیر جانبدار عدلیہ کی مکمل پروفیشنل پریکٹس (اطلاق علم) سے ممکن ہو گی۔
قارئین کرام! متذکرہ رحمتوں سے لبریز پاکستان میں یہی آئین سازی اس دستور کا مکمل اطلاق اور تمام شہریوں پر قانون کا یکساں نفاذ قیام پاکستان کے بعد سے ہی ایک چیلنج بنتا انتظامی مسئلے، سیاسی کھلواڑ سے بیڈ گورننس ڈگمگاتی مختصر المدت حکومتی سیٹ اپ میں تبدیل ہوتا طویل مارشل لائی ادوار کی شکل اختیار کرتا رہا ۔ایک بڑا ستم یہ ہوا کہ انتخابات کے ساتھ ہی آئینی بحران، متفقہ آئین سازی کی مہلک کج بحثی میں دولخت ہو گیا اور جب باقیماندہ پاکستان میں تلخ تاریخ کے حاصل سبق کی بنیاد پر بلاتاخیر قومی اتحاد کی برکت سے بن گیا تو پہلی ہی سیاسی حکومت نے اس کے نفاد کے ساتھ ہی ساڑھے چار میں دستوری خلاف ورزی کیلئے اور مسلسل خلاف آئین حکومتی اقدامات سے پاکستان کو ایک او رگیارہ سالہ مارشل لائی دور کاتحفہ دیا جس میں آئین اپنی متفقہ اور نظریاتی حیثیت میں (بطور اسلامی جمہوریہ) ختم تو نہ ہو سکا لیکن مارشل لا چھتری میں اس کے بدترین نفاذسے سیاسی جماعتوں کی پرورش میں بڑی رکاوٹیں اور ریاستی اداروں کا کردار آئین سے الٹ ہوتا گیا ہماری سیاسی حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کو ہی اس کا ذمے دار قرار دیتی رہیں لیکن موروثی سیاست، کرپٹ و نااہل گورننس، دھاندلی زدہ انتخابات سے اس کے بار بار تسلط کا اہتمام خود کرتی رہیں اتنا کہ تینوں ہی مارشل لائوں کو عوام کے کثیر طبقے نے عوام دشمن دور سے نجات کے طور پر لیا۔
قارئین کرام! جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا گیا 6عشروں کی پرآشوب سیاسی تاریخ کے بعد ملک گیر لائرز تحریک کے نتیجے میں بحالی جمہوریت کا جو عشرہ 2008-18ء شروع کی گئی نشاندہی کے مطابق وہ ارتقائی تھا۔ لیکن پی ڈی ایم کی عالمی وبا میں ہوئی باجواز مہنگائی کی آڑ میں صورتحال کے مطابق عالمی سطح پر قابل تحسین کوویڈ مینجمنٹ اور جی ڈی پی میں تیز اضافے کی گڈ گورننس کے باوجود حصول اقتدار اور خاتمہ حکومت کا جو کھلواڑ مچایا پلس بالائی سطح پر ایک مہلک ایکشن اور تقریر کے حوالے سے آئین کی کمزور پریکٹس کے باعث جو تادم جاری ملک کو اضطراب و ابتری میں غرق کر دینے والا بحران پیدا ہوا اسے بدترین آئین و حلف شکنی کے تواتر کے بعد سیاسی و معاشی استحکام کے فریب سے سنبھالنے کے دعوے اور اپنے تئیں اور بحران مقابلے میں قدرے کامیابی ہوئی جو 8فروری کے انتخابی نتائج یکسر پلٹ کر موجود متنازع حکومت کی تشکیل سے مسلسل موجودہ پوسٹ ترمیم کے متنازع فریق تنازع میں جاری اور پیچیدہ ہوئے تادم بشکل عدلیہ کی تقسیم جاری ہے موجود صورت میں پارلیمان کے ذریعے دستوری ڈھانچہ تبدیل کرنے پر آئین کی تشریح بھی سخت متنازع ہو گئی واحد حل ہمارے معاملے کو ناگزیر متعلقہ علوم کے اطلاق سے ہی سنبھالا جانا ہے، کیسے؟ (جاری ہے)