اندازہ ہے کہ صرف برطانیہ میں ہر سال ایک لاکھ افراد حرکت قلب کے بند ہونے سے ہلاک ہو جاتے ہیں اس مرض میں دل کی رفتار بے قابو اور بے ہنگم ہو جاتی ہے ،دھڑکن کی رفتار فی منٹ 500تک جا پہنچتی ہے اور جسم کو خون کی فراہمی کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ طبی امداد پہنچنے کی صورت میں عموماً بجلی کا شاک دے کر دل کو رکنے نہیں دیا جاتا۔ لوگ اس قدر زیادہ تعداد میں اچانک دل کے حملوں کا شکار کیوں ہو رہے ہیں یہ سوال آج کل سائنس دانوں اور ماہرین قلب کی توجہ کا پھر مرکز بنا ہوا ہے اس سلسلے میں سینٹ جارج ہسپتال میڈیکل اسکول لندن کے پروفیسرز آئندہ تین سال تک 35سے 69سال کی عمر کے درمیان حرکت قلب بند ہو جانے والوں کے دلوں کا بہت تفصیل سے معائنہ کریں گے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ دل کے دورے کے سبب ہونے والی اچانک موت کے کیا اسباب ہیں؟ ان تحقیقات کو برطانیہ میڈیکل ریسرچ کونسل کا تعاون بھی حاصل ہے اور ان کا نقطہ آغاز یہ علم ہے کہ زیادہ تر اموات دل کے عضلات میں خون کی کمی کی وجہ سے واقع ہوتی تھیں لیکن محققین کے پاس اس سلسلے میں معلومات نہایت محدود ہیں کہ خون کی گرہ یا رکاوٹ کس جگہ شروع ہوئی۔ اس ساری تحقیقات کا مقصد صرف یہ جاننا نہیں کہ دل کے کون سے حصے میں عام طور پر خون کی گرہیں بننے کا خطرہ ہوتا ہے بلکہ یہ معلوم کرنا بھی مقصود ہے کہ عمر، جنس، تمباکو نوشی کی عادات اور دل کے مہلک دورے کے دورانیے اور خون کی مخصوص گرہ یا لوتھڑوں کے درمیان کوئی مشترکہ شے بھی ہے یا نہیں؟ اس تحقیق سے یہ معلومات بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ دل کے عضلات میں جو شریانیں کسی رکاوٹ کی وجہ سے یا تنگ ہونے سے متاثر ہو گئی ہیں ان کی کیا شدت ہے اور یہ بھی معلوم کیا جائے گا کہ دل میں کتنی جگہ مردہ ٹشو بن جاتے ہیں متاثرہ افراد کے مختلف گروپوں سے ملنے والی معلومات کا تقابلی جائزہ لے کر دیکھا جائے گا کہ کیا کوئی خاص طرز پائی جاتی ہے ورنہ عام طور پر یہ تعین کیا جاتا ہے کہ دل کے عضلات کی بیماری میں مبتلا لوگوں کے دل کی شریانیں زیادہ موٹی یعنی تنگ اور سخت ہوتی ہیںبہ نسبت ان لوگوں کے جن کو دل کی کوئی بیماری نہ ہو۔ حرکت قلب کے ان خطرات کو روکنے کیلئےجہاں سائنس دانوں اور ماہرین قلب نے بہت سے پروجیکٹس پر کام شروع کیا ہوا ہے حال ہی میں ہالینڈ کے سائنس دانوں نے ایک چھوٹا سا برقی آلہ ’’کک اسٹارٹ‘‘ کے نام سے تیار کیا ہےـ اس کو ہنسلی کی ہڈی کے نیچے کھال کاٹ کر نصب کر دیا جاتا ہے اور اس سے نکلا ایک تار قلب کے اندر اتار دیا جاتا ہے آلہ میں لگی بیٹریاں برقی جھٹکا فراہم کرتی ہیں دل جو نہی ڈانوں ڈول ہو کر ڈگمگاتا ہے اسے روا ںرکھنے کیلئے آلہ سے بجلی کی رو خارج ہوتی ہے جو دل کو رکنے یا بے قابو نہیں ہونے دیتی اس طرح ’’کک اسٹارٹ‘‘ سے دل کو جو کک لگتی ہے وہ دل کی رفتار کو اعتدال میں لے آتی ہے دیا سلائی کے سائز کا یہ چھوٹا سا آلہ وہی کام کرتا ہے جو ہسپتالوں میں اس مقصد کیلئے استعمال ہونے والی مشینیں کرتی ہیں تیاری کے ابتدائی مراحل میں یہ آلہ بہت کامیاب ثابت ہوا ہے اور اس کی افادیت سے کسی بھی ماہر قلب کو اختلاف نہیں ہے چنانچہ اس پر مزید تجربات کا سلسلہ روک کر اسکی تیاری اور فراہمی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے دواؤں کے مقابلے میں اس آلہ نے اب تک کئی جانیں بچائی ہیں۔اس ننھے سے جنریٹر میںلگا الیکٹروڈ آلہ قلب کی رفتار کو کنٹرول کرتا ہے اور جونہی اس میں گڑبڑ واقع ہوتی ہے یہ بجلی کا جھٹکا دے کر اسے درست کر دیتا ہے۔ ماہرین کی رائے میں اس آلے کی تنصیب سے بندش قلب سے ہونے والی اموات کی شرح پر گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ دل کی بیماریوں کے شکار افراد چلتے پھرتے حملے کا شکار ہوں تو ان کے بچنے کے امکانات محض پانچ فیصد ہوتے ہیں لیکن یہ آلہ لگوانے کی صورت میں فوری موت کے خطرے میں نمایا ںکمی واقع ہو جائے گی فی الحال یہ آلہ بہت مہنگا ہے۔ اس وقت برطانیہ میں اس آلے کی قیمت 15ہزار پونڈ ہے لیکن یقین ہے اس کی طلب میں اضافے سے اس کی قیمت میں کبھی واقع ہو جائے گی۔واضح رہے یہ آلہ قلب کی رفتار باقاعدہ رکھنے والے آلے ’’پیس میکر‘‘ سے مختلف ہے’’پیس میکر‘‘ قلب کو جھٹکا نہیں دیتا جبکہ ’’کک اسٹارٹ‘‘ سے وقتی طور پر جھٹکا لگتا ہے دل کے ساتھ جیب کو بھی۔