مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
یہ 2008ءکی بات ہے، مَیں چند روز کے لیے اپنے ماموں کے گھر گئی ہوئی تھی۔ مجھے صبح جلدی جاگ جانے کی عادت تھی۔ صبح سویرے اُٹھی تو سب گھر والے سورہے تھے۔ اکیلے پن میں سخت بوریت محسوس ہورہی تھی،جسے دُور کرنے کے لیے آنگن میں چلی گئی اور یوں ہی اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، تو گیٹ کے پاس اخبار پڑا نظر آیا۔ فوراً لپک کر اٹھایا۔
اتوار کا اخبار ہونے کی وجہ سے کافی ضخیم تھا اور اس کے بیچوں بیچ ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ بھی تھا۔ مَیں میگزین نکال کر ورق گردانی کرنے لگی، صفحے پلٹتے پلٹتے نظر ناول ’’عبداللہ‘‘ پہ جاکے ٹھہر گئی۔ بس، ’’سنڈے میگزین‘‘ سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ ناول کی چند سطور پڑھتے ہی اس کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا، لہٰذا فوراً میگزین لے کر چھت پر چلی گئی اور صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں پوری قسط پڑھ ڈالی۔ وہ غالباً ناول کی دوسری یا تیسری قسط تھی، جسے پڑھنے کے بعد مَیں اس کے الفاظ کے سحر میں کھوسی گئی اور بہت ہی بےچینی سے اگلی قسط کا انتظار کرنے لگی۔
’’سنڈے میگزین‘‘ ہی کے لیے اگلے ہفتے مَیں پھر ماموں کے گھرجادھمکی اور جلدی سے میگزین ڈھونڈ کے پڑھنا شروع کردیا۔ چوں کہ ہر اتوار ماموں کے گھر جانا ممکن نہیں تھا، لہٰذا ممانی سے درخواست کی کہ اتوار کے سنڈے میگزینز اکٹھے کرکے رکھ دیا کریں، جب میں آؤں گی تو لے جاؤں گی، لیکن وہ ہر بار بھول جاتیں اور میگزین اِدھر اُدھر ہوجاتا۔
پھر مجھے معلوم ہوا کہ میرے پڑوس میں بھی جنگ اخبار آتا ہے، تو اُن سے مانگ کر پڑھنے لگی۔ دو تین ہفتے انھوں نے بڑی محبت سے اخبار دیا، لیکن پھر بہانے بنانے شروع کردیئے۔ تو مَیں نے سوچا کہ ان سب جھمیلوں سے بہتر ہے کہ کیوں نہ خود اپنے گھر پر اخبار لگوالوں۔ یہ سوچ کر اتوار کو صبح ہی صبح اخبار والے کا انتظار کرنے لگی۔
کچھ ہی دیر بعد گلی میں ایک انتہائی لاغر ،کم زور سے انکل بوسیدہ سے کپڑوں میں ملبوس نظر آئے۔ ان کے کندھے پر ایک پراناسا تھیلا تھااور وہ ایک پاؤں سے لنگڑا کر چل رہے تھے، جب کہ اُن کا ایک ہاتھ بھی مُڑا ہوا تھا۔ جب وہ ہمارے پڑوسی کے گھر اخبار ڈال کر مُڑنے لگے، تو مَیں نے زور سے پُکار کے انھیں رُکنے کو کہا، وہ ٹھٹک کر رُکے، تو مَیں نے فوراً 15 روپے پکڑا کے اُن سے اخبار خرید لیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ’’اب ہمارے گھر بھی ہر اتوار کو جنگ اخبار دے جایا کریں۔‘‘یہ سنتے ہی اُن کے چہرے پر خوشی کی ایک چمک سی آگئی۔ بہت اخلاق سے کہا۔ ’’جی، بالکل پہنچادیا کروں گا۔‘‘
اُس روز جنگ، سنڈے میگزین خرید کر جو خوشی ملی تھی، اُس کی بات ہی کچھ الگ تھی کہ وہ میرا ذاتی اخبار تھا، پھر تو ہر اتوار جنگ اخبار کا شدّت سے انتظار رہنے لگا اور اخبار ہاتھ میں آتے ہی سب سے پہلے سنڈے میگزین نکال کر پلان کرتی کہ کون سا صفحہ کس دن پڑھوں گی۔ یوں سمجھیں، سنڈے میگزین میرا پہلا پیار، میرا دیرینہ دوست بن گیا تھا۔
گھر میں تفریح طبع کا کوئی سامان تو تھا نہیں، نہ ہی کوئی ایسی سہیلی تھی کہ جس کے گھر آنا جانا ہوتا۔بس ایک جنگ، سنڈے میگزین ہی دل بہلا نے کا واحد ذریعہ تھا۔ خیر، یوں ہی دن بِیتتے رہے اور سنڈے میگزین سے بحیثیت قاری میرا رشتہ مضبوط سے مضبوط ترہوتا گیا۔ اب ہوتا کچھ یوں تھا کہ ہاکر انکل ہر اتوار کو جنگ اخبار دے جاتے اور پیسے لیتے وقت بہت اخلاق سے شُکریہ ادا کرتے، تو اکثر اوقات میری امّی انھیں کھانے پینے کے لیے بھی کچھ دے دیتیں، تو بہت خلوص سے دُعائیں دیتے۔
میرے سیکنڈ ایئر کے امتحانات قریب آئے، تو امّی نے’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھنے پر پابندی لگادی۔ ہاکر انکل آئے، تو مَیں نے اُن سے کہہ دیا کہ ’’اب ایک ڈیڑھ مہینے تک اخبار نہیں لوں گی۔ آپ اب مت آیئے گا۔‘‘ یہ سُن کر وہ اُداس ہوگئے، کہنے لگے۔ ’’ارے بیٹا! میں ان سارے ہفتوں کے اخبار اپنے پاس جمع کر کے رکھ لوں گا، آپ کے امتحانات کے بعد سب اکٹھے لے آؤں گا۔‘‘پھر مجھے امتحان میں کام یابی کی خُوب دُعائیں دینے کے بعد چلے گئے۔
امتحان کے بعد ہاکر انکل نے وعدے کے مطابق سارے میگزین لاکر دے دیئے،جو اُنہوں نے اپنے پاس سنبھال کے رکھے تھے۔ اکٹھے اتنے سارے میگزینز پا کے مَیں کس قدر خوش ہوئی، بتا نہیں سکتی۔ انکل کا ڈھیروں ڈھیر شکریہ ادا کیا۔ مگر..... پھر اگلے ہفتے انکل نہیں آئے۔ میرا دن بہت اُداس گزرا۔ اُس کے بعد اگلے اتوار کو کسی نے دروازے پہ دستک دی، کھولا تو ایک اجنبی شخص دروازے پرتھا۔ اُس نے اچٹتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’آپ اخبار لیتی ہیں کیا؟‘‘ مَیں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے حیرت سے کہا۔ ’’ہاں، لیکن اخبار والے انکل کہاں ہیں؟‘‘ تو جواباً اُس نے بہت سرسری انداز میں بتایا کہ’’پچھلے ہفتے اُن کا انتقال ہوگیا ہے، مَیں اُن کا بھائی ہوں۔‘‘ یہ سُنتے ہی میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے، اُن کا سراپا میری نگاہوں میں آگیا کہ وہ معذور ہونے کے باوجود زندگی کی گاڑی کس قدر جاں فشانی سے کھینچ رہے تھے۔
پھر مَیں 2010 ء میں شادی کے بعد امریکا آ گئی، لیکن جنگ، سنڈے میگزین سے میرا رشتہ اب تک برقرار ہے۔ آج تک کسی ایک اتوار کا میگزین بھی مِس نہیں کیا۔ امریکا آتے وقت میں نے پہلی بار خریدے ہوئے میگزین سے لے کر اُس وقت تک کے سارے میگزینز جمع کر کے رکھے تھے۔ اب تو انٹرنیٹ پر پڑھتی ہوں، لیکن جو لُطف ہاتھ میں لے کر براہِ راست پڑھنے میں آتا تھا، وہ اب کہاں؟ہاں، ہاکر انکل اب بھی اکثر یاد آتے ہیں، تو ان کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہوں۔
اللہ ربّ العزت میرے پیارے ،’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کو دن دُونی، رات چوگنی ترقی دے اور میرا رشتہ اس سے یوں ہی سدا جُڑا رہے، آمین۔ (قرأت نقوی ،ٹیکساس، امریکا)