• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صرف ایک دن درمیان میں ہے۔ منگل کو طے ہونا ہے۔ امریکی گدھے کے ساتھ ہیں یا ہاتھی کے۔

برسوں کی خانہ جنگی کے بعد امریکیوں نے طے کیا تھا کہ ہر چوتھے سال نومبر کے پہلے منگل کو صدارتی انتخابات کیلئے پولنگ ہوگی اور جیتنے والا 20 جنوری کو حلف اٹھائے گا۔ اور اس کی چار سالہ مدت صدارت شروع ہوجائے گی۔

آج اتوار ہے ۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے۔ ان کے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ اصولاً تو آج امریکی صدارتی انتخابات کے بارے میں سوالات ہونے چاہئیں۔ ٹرمپ جیتیں گے یا کملا۔ امریکیوں کیلئے بہت مشکل مرحلہ ہے۔ انہیں پھر یہ طے کرنا ہے کہ ایک عورت کو صدر منتخب کریں یا نہیں۔ پہلے وہ ہلیری کلنٹن کو مسترد کر چکے ہیں۔ تمام روشن خیالی، آزادیٔ نسواں کے دعوئوں کے باوجود امریکہ آج تک کسی خاتون کو حکمرانی کا حق نہیں دے سکا۔ ہلیری کلنٹن کی وجہ ناکامی بنیادی طور پر عورت ہونا ہی تھا۔ امریکیوں کو ڈونلڈ ٹرمپ برداشت کرنا پڑا۔ جس نے امریکہ کو تقسیم کر دیا۔ اس الیکشن کی بنا پر ہی اب پھر ٹرمپ کافی آگے آگے ہیں۔

پاکستان کے اوائل سے ہی امریکی صدارتی انتخابات پاکستانی حکمرانوں اور عوام دونوں کیلئے بہت اہم ہوتے رہے ہیں۔ امریکی الیکشن ہمارے میڈیا میں گرم موضوع رہتے تھے۔ الیکشن سے پہلے جائزے ہمارے اخبارات اور ٹی وی پر باقاعدگی سے آتے تھے۔ اخبارات میں فورم، یونیورسٹیوں میں سیمینار منعقد ہوتے تھے۔ ہم کئی سال سے اپنے اندرونی مسائل، معاشی اور سیاسی میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ اب ایک آدھ خبر اس الیکشن کے بارے میں آتی ہے۔ اس بار تو امریکی الیکشن بہت پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ خود امریکہ میں بھی اس الیکشن میں دلچسپی تاخیر سے پیدا ہوئی ہے۔ ایک تجزیہ کار عاصم متین خان کے مطابق اس کا سبب کملاہیرس کا تاخیر سے میدان میں داخل ہونا بھی ہے۔ ضعیف العمر جوبائیڈن کی ضد نے بھی الیکشن کو غیر دلچسپ بنائے رکھا۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی حرکتوں اور بیانات سے اس کی ریٹنگ بڑھارہے تھے۔ پاکستانی امریکیوں اور دوسرے مسلمانوں کیلئے دونوں امیدوار اس لیے ایک جیسے ہیں کہ غزہ میں ہلاکتوں، اسرائیل کی حمایت میں کملا اور ٹرمپ ایک ہی رائے رکھتے ہیں۔ ٹرمپ غیر ملکی تارکین وطن کیلئے بھی منفی پالیسی رکھتے ہیں۔ اس لیے پاکستانی مشکل میں ہیں کہ اس بار گدھے کا ساتھ دیں یا ہاتھی کا۔

پاکستان کیلئے امریکی الیکشن ہمیشہ بہت فیصلہ کن رہا ہے۔ انتخابات میں ہمارے اخباری نمائندے۔ سیاسی تجزیہ کار بھی امریکی حکومت کی دعوت پر جاتے تھے۔ یہاں امریکی قونصل خانے میں الیکشن کی سرگرمیاں دکھانے کیلئے۔ اشرافیہ کو بلایا جاتا تھا۔

پاکستان کے ہر صدر یا وزیراعظم کیلئے اپنی سرکاری میعاد میں امریکی دورہ کرسی مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ 1953میں تو یہ بھی ہوا کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر ’محمد علی بوگرہ‘ کو وہاں سے وزیر اعظم بناکر بھیجا گیا۔ 1971میں شہید ذوالفقار علی بھٹو، سقوط ڈھاکا کے بعد امریکی صدر نکسن سے ملنے کے بعد ہی پاکستان روانہ ہوئے۔1965 کی جنگ میں امریکہ نے اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ 1971کی جنگ میں پاکستانی امریکی ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے۔ جو اسرائیل کی مدد کو تو فوراً پہنچ جاتا ہے، پاکستان جیسے اتحادیوں کی اعانت کیلئے کبھی لنگر انداز نہیں ہوا ۔ امریکہ نے ہر پاکستانی فوجی حکمران کو طاقت دی۔ لیکن ایوب خان کو Friends not Masters لکھنا پڑی۔ بھٹو کو کہنا پڑا۔ سفید ہاتھی میرے خون کا پیاسا ہے۔ جنرل ضیا نے امریکی امداد کو اونٹ کے منہ میں زیرہ کہا۔ ہر فوجی جنرل کا متبادل بھی ہمارے ہاں امریکہ نے ہی تلاش کیا۔ صدر کلنٹن ہندوستان کے دورے کے ساتھ چند گھنٹوں کیلئے پاکستان میں بھی ٹھہرے تو انہوں نے جنرل مشرف کے ساتھ فوٹو سیشن بھی نہیں کیا۔ وہ صدر تارڑ سے ہی مل کر روانہ ہو گئے۔ لیکن چند ماہ بعد جب نائن الیون ہوگیا تو صدر پرویز مشرف امریکی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ Man of the Moment۔ ٹائم میگزین کا سرورق، لیکن جب صدر مشرف ان کے کام کے نہیں رہے ۔ وردی اتر گئی۔ تو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے واشنگٹن میں صدر بش سے قطار میں ہاتھ ملاتے ہوئے بتایا کہ ہم مشرف کو ہٹارہے ہیں۔ امریکی صدر نے پوچھا کہ کیا آرمی چیف تمہارے ساتھ ہے۔ یوسف رضا نے ہاں کہا۔ بش نے برملا کہا۔ ’’مشرف سے جان چھڑائو۔‘‘ آج کے افراتفری کے دَور میں پاکستان کو وزارت خارجہ کے ایک ڈائریکٹر کے حوالے کردیا گیا ہے۔

اب امریکہ کیلئے انڈیا ایک بڑی مارکیٹ ہونے کے ناطے زیادہ لاڈلا ہے۔ اسے اب انڈیا میں مسلمانوں کے انسانی حقوق پامال ہوتے نظر نہیں آتے۔ کشمیریوں کیلئے اقوام متحدہ کی قرار داد وں پر عملدرآمد نہ ہونا دکھائی نہیں دیتا۔پاکستان کیلئے کملا اچھی ہوں گی یا ٹرمپ۔ پی ٹی آئی ٹرمپ سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے، حکمراں کملا سے۔ حالانکہ دونوں صرف اور صرف امریکی مفاد میں سوچیں گے۔

امریکہ میں ٹرمپ سے اعتدال پسند امریکی بہت خوفزدہ ہیں۔ ان کے گزشتہ دَور میں بار بار تجزیے کیے گئے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ اکثر پروفیسرز نے کہا تھا کہ امریکہ میں جمہوریت خطرے میں ہے اور یہ بھی کہ جب جمہوریت کو خطرہ ہے تو امریکہ کو خطرہ ہے۔ جمہوریت صرف کسی فوجی بغاوت سے ختم نہیں ہوتی۔ وہ عدلیہ کی کمزوری، میڈیا پر پابندی سے، اداروں کی مجبوریوں سے بھی پگھل جاتی ہے۔ جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی سے بھی دم توڑ دیتی ہے۔ محقق لکھتے رہے کہ ٹرمپ کے دَور میں ایسے ایسے واقعات ہوئے جو پہلے کبھی امریکہ میں نہیں ہوئے۔ آئین خطرے میں پڑا، معیشت متاثر ہوئی، امریکی متوسط طبقہ اخراجات کے سامنے بے بس ہوا، بے روزگاری بڑھی، جوبائیڈن آئے دعوے کیے لیکن وہ بھی ایک ناکام صدر رہے۔ اب امریکی اشرافیہ کی بے بسی دیکھئے کہ ری پبلکن کو ٹرمپ کی امیدواری کی ہی تصدیق کرنا پڑی۔ کروڑوں امریکیوں میں ٹرمپ کے علاوہ کوئی صدارتی امیدوار بننے کے قابل نہیں تھا۔ ادھر ڈیمو کریٹس کو بھی پہلے صدر بائیڈن سے جان چھڑانا مشکل ہوئی۔ پھر ان کی نائب صدر کی امیدواری کی توثیق کرنا پڑ گئی۔ یعنی دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت میں بھی اب قحط الرجال ہے۔ یہ صرف امریکہ کیلئے ہی نہیں پوری دنیا کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس عجلت اور مجبوری میں جب امریکی صدر کا انتخاب ہوگا۔ تو آئندہ چار سال کیسے گزریں گے۔ امریکی انتظامیہ ایک طرح سے پوری دنیا پر حکومت کرتی ہے۔ کہیں اس کیلئے جمہوری طرز پر منتخب حکمران اہم ہوتے ہیں اور کچھ ملکوں میں وہ صرف فوج کے سربراہوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں دنیا قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔ اس لیے عالمی تنازعات طے کرنے کی امیدیں اب وائٹ ہائوس سے وابستہ کرنا سیاسی حماقت ہی ہو گی۔

تازہ ترین