میں کچھ دنوں سے شدید نوعیت کی کنفیوژن کا شکار ہوں۔ قیدی نمبر 804 فرمایا کرتے تھے کہ نواز شریف ہوں یا شہباز شریف، یہ کٹھ پتلیاں ہیں، انکی کوئی حیثیت نہیں۔ موجودہ حکومت یا سیاسی قیادت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، بات چیت صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ہوگی۔ مگر انکے جانثار شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا ہے کہ جب نوازشریف چاہیں گے، عمران خان تب رہا ہونگے۔ ایک ٹی وی چینل کے شو میں گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے فرمایا کہ پاکستان کا سسٹم آج بھی نوازشریف کے تابع ہے اگر عمران خان نوازشریف سے معافی مانگ لیں تو رہا ہو جائینگے۔ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ نوازشریف کی سیاست ختم ہوگئی ہے تو پھر موجودہ نظام کی کنجی ان کے پاس ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اور سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان کو رہا کرنے کا فیصلہ اور اختیار نواز شریف کے پاس ہے تو پھر نونہالان انقلاب ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کی دعائیں کیوں کر رہے ہیں؟ حالانکہ پاکستانی نژاد امریکی ساجد تارڑ جو ڈونلڈ ٹرمپ کے بہت قریب سمجھتے جاتے ہیں، وہ واضح کرچکے ہیں کہ عمران خان ٹرمپ کی پھپھی کا پتر ہے کہ وہ حکومت میں آکر اسے رہا کروائیں گے۔یادش بخیر، مہاتما ایک سے زائد مواقع پر فرما چکے ہیں کہ میرا قصور ’’ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ کہنا ہے، میں حقیقی آزادی کیلئے ڈٹ گیا اسلئے میری حکومت گرادی گئی۔ طفلان انقلاب نے ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ ڈالے اور امریکی سازش یعنی رجیم چینج آپریشن کیخلاف بطور احتجاج ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ جیسے سیاسی نعروں کے ذریعے سماں باندھ دیا۔ لیکن اب تازہ خبر آئی ہے، ڈونلڈ لو سے لڑائی ہے مگر ڈونلڈ ٹرمپ ہمارا بھائی ہے۔ تحریک انصاف خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے ذریعے بانی تحریک انصاف کا یہ مطالبہ سامنے آیا کہ پاکستان کے عام انتخابات میں دھاندلی کیخلاف امریکہ آواز اُٹھائے۔ اور پھر امریکی ایوان نمائندگان نے باقاعدہ قرارداد منظور کی کہ پاکستان میں انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات کی آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں۔ اتنی جلدی تو راجہ داہر کی قید میں موجود خواتین قیدیوں کی پکار پر محمد بن قاسم نے لبیک نہیں کہا تھا جتنی سرعت سے امریکی حکام نے عمران خان کی دادرسی کا اہتمام کیا۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوگئی بلکہ امریکی میڈیا نے بانی پی ٹی آئی کے حق میں مضامین شائع کئے، ان کیلئے بھرپور مہم چلائی اور پھر 60ارکان کانگریس نے قیدی نمبر 804 کو رہا کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ ایک بار تو مجھے لگا شاید امریکہ میںنقش کہن مٹ گیا ہے، انتظامیہ بدل گئی ہے، جوبائیڈن اور ڈونلڈ لو کا دھڑن تختہ ہوگیا ہے اور نیا امریکہ وجود میں آچکا ہے اسلئے سابقہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرکے اپنے لاڈلے اتحادی کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر تادم تحریر سب کچھ جوں کا توں ہے۔ البتہ طفلان انقلاب نے ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی اُمیدوں اور توقعات کا مرکز بنالیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے تو وہ عمران خان کو رہاکروائیں گے ۔ امریکہ کے اثر و رسوخ اور دبائوکے ذریعے پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت بحال ہوجائے گی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ امریکی حکام نے مطلق العنان حکمرانوں کی سرپرستی کی اور جب یہ بھید کھل گیا کہ وہ امریکہ کے پروردہ ہیں ،لوگ ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اورتختہ اُلٹ دیا گیا تو پھر امریکہ نے انہیں سیاسی پناہ فراہم کی اور عوام کے اشتعال سے بچالیا۔مگر یہاںتو اس کے برعکس معاملہ ہوا ۔باقاعدہ سائفر لہرا کر یا پھر ایک سادہ کاغذ کو سائفر قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا کہ امریکہ نے لکھ کر دھمکی دی ہے ۔عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کروانے کے بجائے اسے عالمی سازش کہہ کر مسترد کردیا گیا۔حکومت ختم ہوجانے کے بعد ایک عرصہ تک یہ منجن بیچا جاتا رہا کہ امریکہ نے غلامی قبول نہ کرنے کی سزا دی ہے اور صاف انکار کرنے والے وزیراعظم کو ہٹا کر اپنے کارندوں کو مسلط کردیا ہے ۔امریکہ سے مدد کی توقع کرنے کی تو ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ نہ صرف غیر ملکی سازش کا بیانیہ جھوٹ پر مبنی تھا بلکہ سچ یہ ہے کہ حقیقی آزادی کے سرخیل جناب عمران خان درحقیقت امریکی گماشتے ہیں اور ڈاکٹر شکیل آفریدی کی طرح انہوں نے ایسی خدمات سرانجام دی ہیں جن کے عوض ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہوجانے کی صورت میں ان کی مدد کرنا فرض ہے ۔میں کسی بھی پاکستانی کی حب الوطنی پر سوال اُٹھانے کا قائل نہیں اور نہ ہی اس قسم کے الزامات کی طرف مائل ہوں مگر کپتان کے چاہنے والے جس طرح کے خواب دیکھ رہے ہیں اگر وہ حقیقت پر مبنی ہیں تو ان کی تعبیر یہی ہوسکتی ہے۔ویسے تحریک ا نصاف کے بانی رہا ہونے میں کامیاب ہوگئے اور انہیں امریکہ سے ہاتھ ملانا پڑا توخاطرجمع رکھئے ،وہ پاک امریکہ تعلقات کی ایسی فضیلت بیان کریں گے کہ ان کے پیروکار واشنگٹن اور نیو یارک کو مکہ اور مدینہ سمجھنے لگ پڑیں گے۔زمانہ طالب علمی میں معلوم ہوا کہ گرگٹ نامی رینگنے والا جانور موقع کی مناسبت اور حالات کے پیش نظر رنگ بدل لیتا ہے تاکہ وہ اردگرد کے ماحول سے ہم آہنگ ہو جائے اور کسی کی نظروں میں نہ آسکے۔طویل عرصہ یہ جاننے کی جستجو کی جاتی رہی کہ آخر گرگٹ اتنی جلدی رنگ کیسے بدل لیتا ہے۔آخر کار سوئٹرز لینڈ کے سائنسدان یہ معمہ حل کرنے میں کامیاب رہے اور معلوم ہوا کہ گرگٹ اپنی جلد کے اندر مخصوص خلیوں میں موجود رنگوں کے کرسٹلز کی ترتیب اوپر نیچے کرکے رنگ بدلتا ہے۔ایک عرصہ یہ حسرت رہی کہ کسی گرگٹ کو رنگ بدلتے دیکھا جائے مگر کم بخت گرگٹ کبھی نظر ہی نہیں آیا۔پھر خیال آیا کہ شاید رنگ بدلنے کی قدرت کے باعث یہ مخلوق دکھائی نہیں دیتی۔میں نے گرگٹ تو نہیں دیکھا لیکن عمران خان اور ان کے پیروکاروں کو تیزی سے رنگ اور آہنگ بدلتے کئی بار دیکھا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اگر گرگٹ کو معلوم ہو جائے کہ کتنے بڑے گرو کا ظہور ہوچکا ہے تو وہ بھی مہاتما کو اپنا مرشد مان لے۔