پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھی انتظار پنجوتھا کی پراسرار گمشدگی اور بازیابی کا معمہ ایک بار پھر سیاسی رنگ اختیار کر گیا اور اسے غیر متنازع قبولیت حاصل نہیں ہوئی کیونکہ پی-ٹی-آئی قیادت نے سیاسی بے شعوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اغواء کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو براہ راست نشانے پر لیتے ہوئے اسے ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے جو ڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ تحریک انصاف عمران خان کے سینئر وکیل انتظار حسین پنجوتھا کےساتھ کئےگئے وحشیانہ تشدد کی مذمت کرتی ہے انتظار حسین کو شدید تشدد کانشانہ بنایا گیاہے انتظار حسین کو عمران خان کا وکیل ہونے کی سزا دی گئی ہے تحریک انصاف انتظار حسین کا پنجاب پولیس کے ہاتھوں اغواکاروں سے ایک مقابلے کے بعد رہائی کا ڈرامہ مسترد کرتی ہے انتظار کو بھی پاکستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کےخلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے حکومت اور اس کے سہولت کاروں نے ملی بھگت سے اغوا کروایا اس پر شدید تشدد کیا تاکہ وہ عمران خان کا ساتھ چھوڑ دے اس کا سب سے بڑا ثبوت اٹارنی جنرل آف پاکستان کا گزشتہ روز ہائیکورٹ میں دیاگیا بیان ہے کہ اگلے 24 گھنٹے میں اسے چھوڑ دیا جائے گا اور اگلے دن انتظار حسین کی پنجاب پولیس سے برآمدگی اغواکاروں، پنجاب پولیس اور اٹارنی جنرل میں تال میل ثابت کررہی ہے تحریک انصاف چیف جسٹس آف پاکستان سے فوری طور پر مطالبہ کرتی ہے کہ اس پر بااختیار جوڈیشل کمیشن بنا کر آزادانہ انکوائری کروا کر مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ وکلاء کی تنظیمیں اور معزز عدلیہ کس چیز کا انتظار کررہے ہیں کیا اسی طرح ایک ایک کرکے عام عوام کے بعد سپریم کورٹ کے وکلاء اور اس کے بعد معزز ججز کو بھی اغوا کیا جائے گا۔ وکلاء اور ججز کوُاس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔’’انتظارپنجوتھا کی بازیابی پر عامرمغل کا چیف جسٹس آف پاکستان سے بڑا مطالبہ انتظار پنجوتھا کے اغوا کے ذمہ دار ناجائز حکومت اور اس کے سہولت کار ہیںیہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے صداقت عباسی،عثمان ڈار،علی اعوان، عمران ریاض،مطیع اللہ جان اور اسد طور کو اغوا کروایافوری طور پرجیوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔‘‘ ہفتہ کی شب یہ اطلاع ملی کہ انتظار پنجوتھا کو اٹک کی حدود میں کسی علاقہ سے بازیاب کرالیا گیا ہے۔ آدھی رات کے وقت اس خبرکی تصدیق میں دشواری کا سامنا تھا کیونکہ اس وقت متعلقہ پولیس آفیسر کو تلاش کرنا اور اصل حقائق معلوم کرنا ممکن نہیں تاہم معلوم ہوا کہ ہفتہ کی شب تھانہ حسن ابدال کی حدود میں پولیس پکٹ پر خیبرپختونخواء کی جانب سے آنے والی اسلام آباد نمبر کی ایک مشکوک کار کو معمول کی چیکنگ کے لئے روکا گیا اس میں سوار چار افرادنے فائرنگ شروع کردی لیکن پولیس کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں کار سوار گاڑی سڑک پر ہی چھوڑ کر اندھیرے میں غائب ہو گئے، ان کے فرار کے بعد پولیس نے گاڑی کی تلاشی کے دوران ایک شخص آنکھوں پر پٹیوں اور رسیوں میں جکڑے پچھلی سیٹ پر پڑے پایاتاہم اس انتہائی سہمے ہوئے شخص کی آنکھوں پر بندھی پٹیاں ہٹا کر اس سے شناخت دریافت کی تو اس نے دھیمی آواز میں اپنا نام انتظار حسین بتایا جس کی اطلاع پولیس نے حکام بالا کو دی جنہوں نے نامعلوم شخص کو مزید تحقیقات کے لئے تھانے منتقل کرنے کی ہدایت کی اور پولیس کی نگرانی میں پنجوتھا کو تھانے پہنچا دیا گیا جہاں سوالات کے دوران انتظار پنجوتھا نے انکشاف کیا انہیں نامعلوم اغوا کاروں نے 8 اکتوبر اسلام آباد سے اس وقت اغواءکیا جب وہ رات کے وقت آفس سے گھر جارہاتھا۔پنجوتھا نے بتایا کہ اغوا کاروں نے ان کے ہاتھ باندھ کر ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور طویل سفر کے بعد انہیں نامعلوم منزل پر پہنچا دیا۔یہاں پہنچتے انہوں نے بہیمانہ تشدد شروع کردیا اور دو کروڑ روپے تاوان طلب کرتے رہے۔ تاوان کی رقم کا سن کر پولیس آفیسر نے ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کوئی کاروباری شخصیت ہیں تو پنجوتھا نے بتایا وہ سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور اسلام آباد اور لاہور میں پریکٹس کرتے ہیں۔اٹک پولیس حکام نے اغواکاروں کی گرفتاری کے لئے کوئی جتن کرنے کی بجائے میڈیا کے خلاف دھمکیوں وارننگ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ’’شب گذشتہ تھانہ صدر حسن ابدال کے علاقہ میں مشکوک گاڑی میں موجود اغواء برائے تاوان کے مغوی انتظار حسین پنجوتھا کو اٹک پولیس نے بحفاظت بازیاب کروایا جس پر ایک منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ مغوی نے اپنا نام صرف انتظار بتایا اور پولیس آفیشل نے اس کا پورا نام انتظار حسین لیاجس پر کئی وی لاگرز نے منفی پروپیگنڈا کیا اور کہا کہ یہ ایک ڈرامہ ہے۔ اس وڈیو کو آہستہ کر کے بغور سنا جا سکتا ہے کہ اس میں مغوی انتظار حسین اپنا پورا نام بتا رہا ہے۔ کچھ لوگ صرف منفی پروپیگنڈا کر کے پولیس کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پولیس کے خلاف منفی کمپین چلانے والے یوٹیوبرز کے خلاف قانونی کارروائی کا تحرک کیا جا رہا ہے۔‘‘