اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بنگلہ دیش کی معزول و مفرور وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو بھارت کی سرپرستی حاصل تھی۔ انہوں نے ریاستی اداروں کو ساتھ ملا کر نہ صرف اپنے بلکہ بھارتی مفادات کیلئے بھرپور طریقہ سے استعمال کیا جبکہ بنگلہ دیش کے چند جرنیلوں نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ یہی وجہ تھی کہ حسینہ واجد کیساتھ مل کر بنگلہ دیش آرمی کے اعلیٰ افسران بھی اپنے ملک کے بجائے بھارتی مفادات کیلئے کام کرتےرہے۔ان میں لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان بھی شامل بلکہ سرفہرست تھا جس کو موجودہ حکومت نے برطرف کر دیا ہے اور اس کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل سیف العالم کو جبری ریٹائر کر دیا گیا ہے۔ ان جرنیلوں اور انکے بیوی بچوں کے اکائونٹس اور جائیدادوں کو منجمد بھی کر دیا گیا ہے۔ ایک اور میجر جنرل حامدالحق کو بھی جبری ریٹائر کر دیا گیا ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ یہ تینوں بنگلہ دیش آرمی کے افسران فورسز انٹلیجنس ڈائریکٹوریٹ جنرل کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ اسی وجہ سے بنگلہ دیش کے دفاعی اداروں اور معاملات میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور بھارت کا مکمل عمل دخل تھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بنگلہ فوج بھارتی پراکسی بنا دی گئی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان کا اس سارے کھیل میں بنیادی اور اہم کردار تھا اور اسی لیے وہ حسینہ واجد کے بہت قریب اور بااعتماد لوگوں میں سرفہرست تھا۔ وہ ایک طرح سے مکتی باہنی کا وارث بنا ہوا تھا۔ کیونکہ مکتی باہنی کے شروع کردہ قتل و غارت کے خونی کھیل کو لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان نے جاری رکھتے ہوئے دوام بخشا۔ حسینہ واجد ایک فاشسٹ حکمران تھی اور وہ عوامی لیگ اور بھارت کے مخالفین کا جنرل مجیب کے ذریعے قتل کرواتی تھی۔ یوں جنرل مجیب حسینہ واجد کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش اور وہاں کے عوام کے بجائے بھارتی مفادات کے لیے کسی بھی جائز و ناجائز اقدام حتیٰ کہ بنگلہ دیشیوں کے قتل عام سے بھی دریغ نہیں کرتاتھا۔ اس جرنیل نے فوج میں اپنا ایک قاتل اور بدمعاش نیٹ ورک بنا رکھا تھا دوسری طرف اس کھیل میں عدلیہ کے بعض اہم جج بھی حسینہ واجد کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور اس کی منشا کےمطابق فیصلے دیا کرتے تھے۔ مختصر یہ کہ حسینہ واجد کی حکومت بھارت کی نمائندہ اور کٹھ پتلی حکومت تھی۔ حسینہ اور اس کے ساتھیوں کا بنگلہ دیش اور بنگالی عوام کے ساتھ تعلق صرف حکمرانی کی حد تک تھا۔ جنرل مجیب کی بدمعاشی اور قتل و غارت کے خوف سے کسی کی ہمت نہیں تھی کہ وہ حکومت کے خلاف آواز بلند کر سکے۔ دوسری طرف عدلیہ کے یکطرفہ فیصلوں کی وجہ سےہر آدمی خوف میں مبتلا تھا۔ جنرل مجیب نے ہی ’’را‘‘ کو بنگلہ دیش میں اپنے زیرسایہ کھل کر کام کرنے کی اجازت دی تھی۔ اور حسینہ واجد کی حکومت کی برطرفی کے وقت وہ ’’را‘‘ کی مدد سے ہی فرار ہو کر بھارت پہنچ گیاتھا۔ اس جنرل پر چار سو سے زائد بنگلہ باشندوں کے قتل کا الزام ہے۔ قارئین جنرل مجیب کے طاقتور ہونے کا اندازہاس بات سے لگا سکتے ہیں کہ حسینہ واجد کی اشیر باد سےوہ وہاں کے ہر قانون سے ماورا تھا۔ اس جنرل نے ’’را‘‘ کے دو سوپچاس کارندوں کو بنگلہ دیش میں نہ صرف کھل کر تحفظ فراہم کیا بلکہ ان کو ہر طرح کی آزادی اور سہولیات دیں۔ اس نے کچھ اور افسران کو ساتھ ملا کر ایک طرح سے وہاں کی فوج کے اندر اپنی ایک فوج بنا رکھی تھی۔ اس نے عوامی لیگ کے ساتھ تعلقات رکھنے والوں کوفوج میں ترقی دی۔ ان کوششوں کو جنرل ضیاء الاحسن، جنرل تبریز، جنرل صالح اور جنرل اکبر سمیت حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں نے سپورٹ کیا۔ جنرل مجیب نے اسٹاک مارکیٹ میں تین کروڑ کی سرمایہ کاری بھی کی تھی۔ اسکے علاوہ ملک بھر میں فلیٹس، پلاٹ اور وہاں کے مہنگے علاقوں میں مکانات سمیت دیگر بڑی جائیدادیں بھی بنا رکھی تھیں۔ جنرل مجیب نے محمد فیض الرحمان کو بی جی ایم ای اے کے ڈائر یکٹر اور اے جے بھوپال گروپ کے سی ای او کے طور پر تقرری میں سہولت بھی فراہم کی جس کے بدلے میں اس جرنیل کو پانچ کروڑ ڈی بی ٹی ملے۔
جنرل مجیب کی بیوی بھی پیچھے نہ رہی وہ بھی ملک بھر میں 3-4کروڑ روپے سے زیادہ نقد، پلاٹس اور کئی فلیٹس کی مالک ہے۔ یہ جنرل نہ صرف ٹیکس چوری میں ملوث رہا بلکہ اس کی غیرملکی دوروں کے دوران خریداری کی ادائیگیاں سابق وزیر اعظم حسینہ واجد نے کیں۔ اس جنرل نے دوران ملازمت اپنی طاقت کا بھرپور اور غلط استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی حتیٰ کہ اپنے بیٹے کو نگر میں اعلیٰ عہدے پر تعینات کرایا جو میرٹ کے قطعی خلاف تھا۔ خلاصہ یہ کہ حسینہ واجد کے ساتھ مل کر جنرل مجیب نے بنگلہ دیش کو بھارت کے ہاتھ گروی رکھوایا اور اس کے بدلے اقتدار، طاقت اور دولت حاصل کی۔ ان دونوں نے اقتدار اور طاقت کے زور پر بنگالیوں کا خون نچوڑا، ان پر ہر طرح کے ظلم ڈھائے اور بھارت کے مفادات کو ترجیح دی۔ حسینہ واجد کا طویل دور حکومت اور جنرل مجیب کے ان سے قریبی تعلقات نے بنگلہ دیش کا سارا انتظامی، عسکری اور عدالتی نظام اتھل پتھل کر کے رکھ دیا۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ بنگلہ دیش کی نئی حکومت اپنی فوجی قیادت کیساتھ احتیاط سے چلے گی اور اتحادیوں کی حمایت حاصل کرے گی۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا ہے ساتھ ہی ساتھ جنرل مجیب بھی ذلت کے ساتھ حسینہ واجد کی طرح بنگلہ دیش سے فرار ہو چکے ہیں۔ بنگلہ دیشی عوام نے اپنے ملک کو غداروں سے پاک کرنے کیلئے جانی اور مالی قربانیاں دیں۔ ملک میں قانون کی عملداری قائم کرنا اور ملک سے غداری کرکے ملکی نظام کو تباہ کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا نئی حکومت کیلئے بڑا چیلنج اور ذمہ داری ہے۔ دوست ممالک سے تعلقات کو مضبوط کرنا بھی نہایت اہم اور فوری اقدامات کا متقاضی ہے۔