• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5 نومبر کو دنیا کی طاقتور ترین شخصیت منتخب ہونے جا رہی ہے۔ امریکہ کے بے پناہ مالی و دفاعی وسائل اور دنیا میں ڈپلومیٹک اثرورسوخ کی وجہ سے دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے اسکا صدر کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ غزہ کی صورتحال کی وجہ سے پوری دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اور آج کا سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ دو دن بعد منتخب ہونیوالا صدرچاہے تو اپنی دانشمندی سے ماضی کے ’’کیمپ ڈیوڈ معاہدہ‘‘ کی طرز پر فریقین میں صلح کروا دے چاہے تو دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں دھکیل دے۔ پاکستان کیلئے اپنی حد تک امریکی صدر کی اہمیت اس ایک مثال سے واضح ہو جاتی ہے کہ ماضی قریب میں جب IMF کیساتھ معاہدہ کرنے میں دقت پیش آئی تو پاکستان کو امریکی حکومت کی سفارش کروانی پڑی۔ انہی وجوہات کی بنا پر ساری دنیا کی نظریں آج منگل کو امریکہ میں ہونیوالی پولنگ پر لگی ہیں۔ امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج کی پیش گوئی کرنے سے پہلے اسکا نظام سمجھنا ضروری ہے۔ امریکی 50ریاستوں کے ووٹر جب بیلٹ پیپر پر صدارتی امیدواران کے ناموں پر مہر لگاتے ہیں تو حقیقتاً وہ الیکٹورل کالج کے ڈیلیگیٹس کو ووٹ دیتے ہیں۔ انکی تعداد متعلقہ اسٹیٹ کی آبادی پر منحصر ہوتی ہے۔ جیسے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹی اسٹیٹ الاسکا کے 3جبکہ ٹیکساس کے 38ہیں۔ پورے ملک سے منتخب ہونیوالے 538 ڈیلیگیٹس کے الیکٹورل کالج میں سے 270 ووٹ لینے والا صدر منتخب ہو جاتا ہے۔ اس سسٹم کی وجہ سے یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ عوام کے اکثریتی ووٹ لینے والا ہار جائے اور کم عوامی ووٹ لینے والا امیدوار الیکٹورل ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنے کی وجہ سے فاتح قرار پائے۔ جیسا کہ 2000ء میں اس وقت کے نائب صدر ال گور کے پاپولر ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود مخالف امیدوار جارج بش (جونیئر) صدر منتخب ہو گئے تھے۔ امریکہ میں یہ نظام 1788 میں اسلئے وضع کیا گیا تھا کہ تمام ریاستیں صدر منتخب کرنے میں انصاف پر مبنی کردار ادا کریں۔ اور بڑی ریاستیں صرف زیادہ آبادی کے زور پر صدور منتخب کرنے کے پروسس کو Dictate نہ کرا سکیں۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 2کی شق نمبر 1کے مطابق صدارتی امیدواروں کا 35سالہ ، پیدائشی امریکی شہری ہونا اور کم از کم 14سال امریکہ میں رہائش پذیر ہونا لازمی ہے۔ جبکہ ووٹروں کیلئے صرف شہریت اور 18سال عمر کی شرط ہے۔ کچھ ریاستیں روایتی طور پر ریپبلکن یا ڈیموکریٹک اکثریت رکھتی ہیں۔ اسلئے جیت ہار کا انحصار ان ریاستوں پر ہے جو سیاسی طور پر درمیان میں ہونے کے ناطے سونگ اسٹیٹس کہلاتی ہیں۔ مثلاً پنسلوانیا ، جارجیا اور نویڈا وغیرہ۔ اب دونوں امیدوار سارا زور ان سونگ اسٹیٹس کو جیتنے پر لگا رہے ہیں۔ ہسپانک، بلیک اور ایشین پس منظر رکھنے والے ووٹروں کی اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتی ہے۔ اسلئے ٹرمپ سفید فام ووٹر اپنی طرف مائل کرنے کیلئے نسل پرستی کی Tactics استعمال کر رہے ہیں۔ مگر ان ہتھکنڈوں کا اثر کچھ زیادہ نہیں ہو گا کیونکہ ساری زندگی انگنت اسکینڈلوں کی وجہ سے ٹرمپ کا امیج داغ دارہو چکا ہے۔ مختلف اوقات میں ٹرمپ نے 3 شادیاں کیں مگر تینوں بیویوں سے بے وفائی کی۔ دو درجن خواتین نے ٹرمپ کیخلاف جنسی زیادتی کے کیسز عدالتوں میں دائر کئے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس طرح کے عوامل ٹرمپ کا امیج بدتر کرتے جائینگے۔ امریکہ کی معیشت بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ ہونے کے ناطے ، وہاں کمیونسٹ کا لفظ ناپسندیدہ ہے۔ اسی لئے ٹرمپ بار بار کاملہ کو کمیونسٹ اور کامریڈ کہتے ہیں۔ کاملہ ترقی پسند نظریات کی حامل ضرور ہیں۔ مگر وہ کسی صورت بھی کمیونسٹ نہیں۔ ٹرمپ کے یہ منفی ہتھکنڈے بیک فائر کررہے ہیں۔ اپنی کمپین میں ٹرمپ کئی دفعہ مذہبی ٹچ دے چُکے ہیں۔ اس فعل سے اپنی کمپین کے مقاصد کے حصول میں وہ واضح طور پر کامیاب نظر آتے ہیں۔ تمام رجعت پسند ووٹر انکی قیادت میں متحد ہو چکے ہیں ۔ پروٹیسٹنٹ اور دیگر فرقوں کے علاوہ کیتھولک فرقہ ان کیساتھ کھڑا ہے۔ کیونکہ ٹرمپ کی مانع حمل پالیسی کی وجہ سے پوپ کے بیان کا جھکاؤ نسبتاً ٹرمپ کی طرف محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اس اپروچ کی وجہ سے لبرل ووٹر جو بہت بڑی اکثریت پر مشتمل ہیں، ٹرمپ کو ہر صورت شکست دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر اس ایشو کی وجہ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ خواتین کی واضح اکثریت ٹرمپ کیخلاف ووٹ ڈالے گی۔ بچپن میں اپنے ترقی پسند والدین کی تربیت، سفید فام معاشرے میں بلیک پرسن کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے انکی وجہ سے اور ڈیموکریٹک پارٹی میں بطورِ سیاسی کارکن بائیں بازو کی شہرت رکھنے کی وجہ سے مجموعی طور پر کاملہ ہارِس کی سوچ معاشرے میں نچلے طبقوں اور دنیا میں ترقی پذیر ممالک کیلئے کہیں بہتر اور منطقی ہے۔ جبکہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں 7مسلم ممالک کے شہریوں کا امریکہ میں داخلہ بند کر کے نفرت کمائی تھی۔ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس شفٹ کرنے کی مذموم حرکت بھی کی تھی۔ جبکہ کاملہ ہارِس نہ صرف ٹرمپ بلکہ موجودہ صدر بائیڈن سے بھی زیادہ ترقی پسند اور مثبت سوچ کی مالک ہیں۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر کاملہ ہارِس صدر منتخب ہوتی ہیں تو پاکستان اور سارے عالم اسلام کیلئے انکی پالیسی ٹرمپ کی نسبت زیادہ مثبت اور انصاف پر مبنی ہو گی ۔ آخری اطلاعات تک ٹرمپ کی کمپین کیلئے صرف 940ملین ڈالر جبکہ کاملہ کیلئے 1.27 بلین ڈالر اکٹھے ہو چکے ہیں۔ اسلئے بڑے اعتماد سے اس تجزیئے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ 5 نومبر کاملہ ہیرس کی جیت کا دن ہے۔

تازہ ترین