• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت دنیا بھر کے ٹی وی چینلز پر ایک ہی بریکنگ نیوزنشر ہورہی ہے اور وہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی صدارتی الیکشن میں اپنی شاندار جیت کا اعلان۔ عالمی طاقت کے مرکز امریکہ کی اہم ترین ریاستوں میں فیصلہ کُن برتری حاصل کرنے کے بعد ٹرمپ نے اپنے سپورٹرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں امریکی شہریوں نے غیرمعمولی مینڈیٹ دیا ہے،اس موقع پر ٹرمپ کے حامیوں نے (میک امریکہ گریٹ اگین) امریکہ کو پھر سے عظیم بنائو کے فلک شگاف نعرے بلند کئے، امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کے مطابق ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے صدارتی انتخابات میں 277 الیکٹوریل ووٹ حاصل کرکے میدان مار لیا ہے، ٹرمپ کی مدمقابل ڈیموکریٹ خاتون امیدوار کملاہیرس کو 226ووٹ ملے ہیںجبکہ امریکہ کا صدر منتخب ہونے کیلئے ٹوٹل 270ووٹ درکار ہوتے ہیں،امریکی میڈیا کامزید کہنا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں فیصلہ کُن کردار ادا کرنے والی سات پانسہ پلٹ ریاستوں میں سے چار ریاستوں بشمول شمالی کیرولائنا، پنسلوینیا، جارجیا اور وسکانس کے شہریوںنے ٹرمپ کے حق میں فیصلہ سُنا دیا ہے، ٹرمپ کی جانب سے اپنی عظیم الشان فتح کے اعلان کے بعد عالمی رہنمائوں کی جانب سے مبارکبادکے پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔امریکہ سے ایسی رپورٹس بھی موصول ہورہی ہیں کہ مختلف ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی اور دوبارہ گنتی کا عمل متوقع ہے۔ عمومی طور پر ہر چار سال بعد امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج پر دنیا بھر کے شہریوں کی توجہ مرکوز ہوجاتی ہے، تاہم حالیہ انتخابات کو ہر لحاظ سے تاریخ ساز سمجھا جارہا ہے، اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف کملا ہیرس امریکی تاریخ کی پہلی خاتون صدر منتخب ہونے کیلئے سرتوڑ کوششیں کررہی ہیں تو دوسری طرف ٹرمپ گزشتہ الیکشن ہارنے کے بعد ایک مرتبہ پھر وائٹ ہائو?س میں واپسی کے خواہاں ہیں، ایسی صورتحال میںٹرمپ گزشتہ 120سالوں میں الیکشن ہار کر پھر واپس دوبارہ جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ ہفتے کے اخباری کالم میں نشاندہی کی تھی کہ حالیہ امریکی الیکشن میں کونسا امیدوار میدان مارے گا، اس حوالے سے پیشگی طور پر کہنا مشکل نظر آرہا ہے کیونکہ دونوں صدارتی امیدواروں کو ستارے بہت زیادہ فیور کررہے ہیں، اگر ایک طرف کملا ہیرس اپنی عوامی مقبولیت کی بنا پر مضبوط امیدوارہیں تو دوسری طرف ٹرمپ ایک مضبوط شخصیت کے مالک ہیں جو ہر بحران سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کی وکٹری اسپیچ کے بعد اب عالمی میڈیا کی توجہ اس امر کی جانب مرکوز ہوگئی ہے کہ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ممکنہ واپسی کے کیا اثرات مرتب ہونگے؟ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دورِ اقتدار میں اپنے آپ کو ایک امریکی قومی لیڈر کے طور پر منوانے کی بھرپور کوشش کی، ٹرمپ کا امریکی مفاد کو مقدم رکھنے کیلئے امریکن فرسٹ کا نعرہ عوام میں مقبولیت کی انتہا پر پہنچ گیا، ٹرمپ کی جانب سے دونوں کوریائی ممالک کے مابین دشمنی ختم کرنے کیلئے کوریا کا تاریخی دورہ آج بھی دنیا بھر میں بسنے والے امن پسندوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔اگرچہ حالیہ امریکی انتخابات کا پاکستانی منظرنامہ پر براہ راست اثر ہونے کا کوئی خاص امکان نہیں ہے، تاہم ماضی میں ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں سخت موقف اختیار کیاتھا، بالخصوص عالمی دہشت گردی اور افغانستان کے حوالے سےٹرمپ کی جانب سے متعدد متنازع بیانات سامنے آئے، انہی عوامل کی بنا پر کچھ تجزیہ نگار تشویش میں مبتلا ہیں کہ ٹرمپ کی جیت ممکنہ طور پر اقتصادی امداد اور عسکری تعاون کو متاثر کر سکتی ہے،سابق امریکی صدر جوبائیڈن کے برعکس ٹرمپ افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی لاسکتے ہیں جسکا براہ راست اثر پاکستان پر پڑنے کا خدشہ ہے، ٹرمپ کے اسرائیل سے قریبی تعلقات مشرق وسطیٰ میں ایک نئی کشیدگی شروع کرنے کا باعث بھی بن سکتے ہیں، اگر ہمارے پڑوس میں جنگ کے شعلے بھڑکتے ہیں تو لازمی طور پرہمارے خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے کا خدشہ ہے جس سے پاکستان بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ تاریخی طور پرری پبلکن صدور کا دورِ حکومت پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات میں خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوتا رہا ہے، ڈیمو کریٹ صدر جمی کارٹر کے زمانے میں اگر دونوں ممالک کے مابین سفارتی تلخی آئی تو ری پبلکن صدر رونلڈ ریگن کے دور میں پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر سامنے آیا، ڈیموکریٹ صدر بل کلنٹن نے اگر پاکستان کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا تو ری پبلکن صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میںنائن الیون کے بعد دونوں ممالک قریب آئے،ڈیموکریٹ صدر اوباما کے دور میں ایبٹ آباد کا واقعہ پیش آیا تو ری پبلکن صدر ٹرمپ کی جانب سے دیرینہ مسئلہ کشمیرکے پرامن حل کیلئے ثالثی اور دورہِ پاکستان کی خواہش نے پاکستانیوں کے دِل جیت لئے۔ ٹرمپ کی جانب سے فتح کے اعلان میں جلدبازی معنیٰ خیز ہے،واضح رہے کہ گزشتہ صدارتی الیکشن میں جو بائیڈن کو الیکشن کے چار دن بعد فاتح قرار دیا گیاتھا۔ امریکی صدارتی انتخابات کے دوران انتخابی عمل سبوتاژ کرنے کیلئے بم کی افواہیں، پولنگ کے عمل میںمختلف رکاوٹوں کا سامنا اور ٹرمپ کی طرف سے امریکی انتخابات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مداخلت کے حوالے سے ٹویٹ نے علم نجوم کی ان پیش گوئیوں کو تقویت دی کہ وائٹ ہاؤس میں داخلے کا مرحلہ اتنا آسان ثابت نہیں ہوسکے گا، اگر ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس کے راج سنگھاسن پر براجمان ہوجاتے ہیں تو اسکا مطلب یہی ہے کہ انہوں نے ماضی میں کی جانے والی اپنی غلطیوں کا مداوا کرلیا ہے اور اب کرما کے سال میں ستارے ٹرمپ پر مہربان ہورہے ہیں، تاہم اس کیلئے انہیںثابت کرنا ہوگا کہ وہ عالمی امن کے قیام کیلئے سنجیدہ ہیں اور جارحانہ رویہ اختیار نہیں کریں گے، جوتشیوں کے مطابق ٹرمپ اپریل 2025ءمیں کامیابیوں کے عروج پر پہنچ جائیں گے۔

تازہ ترین