• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کی طرف سے کراچی میں ہونے والی ٹیکسٹائل اور چمڑے کی بین الاقوامی نمائش ٹیکسپو 2024میں 910ملین ڈالر سے زائد کے کاروباری سودے ہوئے ہیں جوبحران کے شکار پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلئے ایک اچھا شگون ہے۔ اس نمائش میں 60ممالک سے 527 غیر ملکی خریداروں اور 272 نمائش کنندگان نے حصہ لیا جس سے عالمی سطح پر پاکستان کے ٹیکسٹائل اور چمڑے کی برآمدات میں اضافے کی توقع ہے۔ اس تین روزہ نمائش میں بزنس ٹو بزنس 1969ملاقاتیں ہوئیں اور مفاہمت کی 10یادداشتوں پر دستخط ہوئے جس سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے پوٹینشل کا اظہار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس نمائش سے ٹیکسٹائل کے برآمدکنندگان کو نئے خطوں تک رسائی اور غیر روایتی مارکیٹوں کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینے کا بھی موقع ملا ہے جس پر حکومت خراج تحسین کی مستحق ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اکتوبر 2024ءمیںپاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ٹیکسٹائل برآمدات کا مجموعی حجم ساڑھے چار ارب ڈالر رہا ہے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 10 فیصد سالانہ اضافہ ہے۔ برآمدات میں گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے اضافے کی بڑی وجہ پاکستان کے معاشی حالات میں بہتری، سپلائی میں رکاوٹ کی وجہ سے بنگلہ دیش کے برآمدی آرڈرز کی پاکستان منتقلی اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ٹیکسٹائل برآمدات میں سب سے زیادہ 73 فیصد حصہ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کا ہے جس میں گارمنٹس، نٹ ویئر اور بیڈ ویئر سب سے آگے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پہلی سہ ماہی میں گارمنٹس کی برآمدات میں23.17فیصد، نٹ ویئر میں 14.13فیصد اور بیڈ ویئر میں 13.31فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعداد وشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مستقبل میں برآمدات بڑھانے کیلئے کن شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ اکتوبر کی برآمدات کا حجم ستمبر کی برآمدات سے تقریباً دو فیصد کم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے جاری برآمدات میں اضافے کا رجحان دوبارہ نیچے جانا شروع ہو گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہےکہ برآمدات میں اضافے کیلئے حکومت کی طرف سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درکار تعاون حاصل نہیں ہو رہا ہے بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس حوالے سے حکومتی اقدامات انڈسٹری کیلئے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پہلے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ایکسپورٹرز کیلئے سیلز ٹیکس گوشواروں کے ساتھ یہ حلف نامہ جمع کروانا لازمی قرار دیا کہ ان کی سپلائی چین میں شامل سپلائرز نے سیلز ٹیکس کی ادائیگی یقینی بنائی ہے۔ حالانکہ ایکسپورٹر کو ملٹی ٹیئر سپلائی چین تک رسائی حاصل نہیں ہے اور ایف بی آر کے آن لائن سسٹم کے ذریعے بھی فروخت کنندہ کے صرف ’’ایکٹو ٹیکس پیئر‘‘ہونے کی تصدیق ممکن ہے۔ ایسے میں ایکسپورٹرز کو پوری سپلائی چین کیلئے ذمہ دار ٹھہرانا غیر منصفانہ ہے۔ ایکسپورٹرز ابھی اس مصیبت سے جان چھڑانے میں مصروف تھے کہ حکومت نے یکم جنوری 2025 سے ایکسپورٹرز کے کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔حکومت کے اس اقدام سے مجموعی طور پر 1280کیپٹو پاور پلانٹس متاثر ہوں گے جن میں سے 800 سوئی سدرن گیس کمپنی اور 480سوئی ناردرن گیس کمپنی سے گیس حاصل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کیپٹو پاور پلانٹس بند ہونے سے ناصرف برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل متاثر ہو گی بلکہ لاکھوں مزدور بھی بیروزگار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حکومتی زعماء کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیپٹو پاور پلانٹس خودکار ٹیکسٹائل مشینری کو بجلی کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے اور وولٹیج میں اتار چڑھاؤ سے بچانے کیلئے ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بیک وقت بجلی اور بھاپ کی پیداوار کی خوبی کے باعث بھی کیپٹو پاور پلانٹ انڈسٹری کیلئے ناگزیر ہیں۔ علاوہ ازیں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات سے دوچار نیشنل گرڈ پر مکمل انحصار انڈسٹری کی طلب کو پورا کرنےکیلئے ناکافی ہے اور اس سے ٹیکسٹائل ویلیو چین میں حساس آلات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یاد رہے کہ آج سے تقریباً دو دہائی قبل جب نائن الیون حملوں کے بعد کولیشن پارٹنر ہونے کی وجہ سے پاکستان کو امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے ملنے والی مراعات کی وجہ سے مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بڑے پیمانے پر توسیع کی جا رہی تھی۔ اس وقت حکومت نے انڈسٹری کی انرجی کے حوالے سے ضروریات کو ہنگامی بنیادوں پر پورا کرنے کیلئے گیس سے بجلی پیدا کرنے کی خود اجازت دی تھی جس پر ایکسپورٹ انڈسٹری نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے جنریٹر لگا کر گیس سے بجلی کی پیداوار شروع کر دی تھی۔ بعدازاں جب ملک میں گیس کا بحران پیدا ہوا تو انڈسٹری کو یکدم گیس کی فراہمی روک دی گئی جس سے تقریبا 20 سے 30 دن تک انڈسٹری بند رہی اور اس ایک فیصلے سے بڑے بڑے صنعتی یونٹس یکدم خسارے میں چلے گئے تھے۔ اگر اب بھی حکومت نے کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کرنے کا فیصلہ واپس نہ لیا تو اندیشہ ہے کہ انڈسٹری کو دوبارہ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کالموں میں پہلے بھی بار بار یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ جب تک انڈسٹری کو درپیش توانائی بحران کا طویل المدت حل تلاش نہیں کیا جاتا ہے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ کیپٹو پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند کرنے کا فیصلہ واپس لے کر فوری طور پر متبادل اقدامات کرے تاکہ برآمدات میں اضافہ جاری رکھ کر لاکھوں مزدوروں کو بیروزگاری سے بچایا جا سکے۔

تازہ ترین