مصنّفہ: اُمّ ِ رباب
صفحات: 127، قیمت: 1000 روپے
ناشر: ضحیٰ پبلی کیشن، ہنگورجہ/کراچی
24 سالہ اُمّ ِ رباب کا اپنی اِس کتاب سے متعلق کہنا ہے کہ’’ میری کتاب زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور نہیں ملے گی۔ یہ زندگی کے دِل کش نقوش سے مزیّن تو نہیں، البتہ زخموں کے مرہم کی تلاش کی رُوداد ضرور ہے۔‘‘جنوری 2018ء میں مصنّفہ کے والد، چچا اور دادا، جو چانڈیو قبیلے کی ذیلی شاخ، میررانی سے تعلق رکھتے تھے، سرداری نظام کی بھینٹ چڑھے، تو وہ اُس وقت قانون کی طالبہ تھیں، وہ دن اور آج کا دن، انصاف کے حصول کے لیے مسلسل سرگرمِ عمل ہیں اور اِس دوران کون کون سا دَر نہیں کھٹکھٹایا، کہاں کہاں رابطے نہیں کیے، کس کس کے سامنے فریاد نہیں کی، کس کس کے نام درخواستیں نہیں لکھیں،مگر انصاف کی منزل ابھی دُور ہے۔ اُمّ ِ رباب نے 14 ابواب پر مشتمل اِس کتاب میں اپنی اِسی داستان کو بیان کیا ہے۔
سندھ ساگر پارٹی کے چیئرمین، عبدالمومن میمن کا کہنا ہے۔’’ آپ کے ہاتھ میں بظاہر ایک کتاب ہے، لیکن درحقیقت یہ درد والم کی وادی سے اُٹھنے والی چیخ و پکار کی صدائے بازگشت ہے۔‘‘مصنّفہ برہنہ پا سرکاری دفاتر اور عدالتوں کے چکر لگاتی رہی، مگر معاشرتی بے حسی اور نظامِ انصاف کی بے بسی کا یہ عالم کہ کوئی اُس کے سر پر ہاتھ رکھنے کو بھی تیار نہ ہوا، مگر صنفِ نازک نے اِس کے باوجود بہادری و ہمّت کی نئی مثالیں قائم کیں۔
انیسہ ہارون نے اِسی تناظر میں لکھا ہے کہ’’ یہ ایک ایسی لڑکی کی زندگی کی داستان ہے، جس نے اپنی مظلومیت کو جھٹک کر ہمّت کا لبادہ اوڑھ لیا۔‘‘ تہمینہ درّانی کا کہنا ہے کہ’’ یہ کتاب مایوس لوگوں کو ہمّت دیتی ہے اور جدوجہد کا سبق سکھاتی ہے۔‘‘جب کہ جسٹس(ر) ماجدہ صدیقی نے اِسے ایک’’ طاقت وَر داستان‘‘ قرار دیا ہے۔
اُمّ رباب نے اپنا دُکھ بیان کرنے کے ساتھ سرداری نظام کی تاریخ، اس کے خلاف ہونے والی جدوجہد اور اِس نظام کی سفاکیت کی تفصیلات بیان کرنے کے ساتھ، اِس سے چھٹکارے کے لیے تجاویز بھی دی ہیں۔