اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج کے زیر انتظام رواں ماہ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں کانفرنس آف پارٹیز ’’کوپ 29‘‘ہونے جا رہی ہے۔ اس سال کی کانفرنس کے بنیادی مقاصد میں کلائمٹ فنانسنگ کے وعدوں کی تکمیل کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ٹھوس شراکت اور جوابدہی پر زور دینا ہے۔ علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا مقامی حل تلاش کرکے اس پر عملدرآمدکیلئے علاقائی اور عالمی شراکت داری کو فروغ دینا بھی کانفرنس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مطابق اس کانفرنس کے دوران پاکستان کلائمیٹ فنانسنگ کے وعدوں کی تکمیل پر توجہ مرکوز کرے گا۔ اس سلسلے میں ماضی کی یقین دہانیوں پر بھی بات کی جائے گی تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے وسائل کی دستیابی میں اضافہ ہو سکے۔
واضح رہے کہ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے کلائمٹ فنانسنگ کے عنوان سے ہونے والی اس عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے انعقاد سے قبل عالمی سطح پر قائم گرین کلائمٹ فنڈ اپنے مقررہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ چار سال کے دوران ہونے والی کانفرنسز میں کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ممالک کی طرف سے بڑے بڑے دعوئوں کے باوجود سو ارب ڈالر بھی جمع نہیں ہو سکے ۔ گرین کلائمٹ فنڈ میں 2020 سے 2024 تک مجموعی طور پر 61.5 ارب ڈالرز جمع ہوئے ہیں جس میں سے پاکستان کو صرف 25 کروڑ ڈالر ملے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کاربن کے اخراج کے بڑے ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک کی یقین دہانیوں کے باوجود فنڈز کی عدم فراہمی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ پاکستان جیسے ممالک کو فنانسنگ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
ان چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے کوپ29 میں کلائمٹ فنانسنگ کے حوالے سے اہداف کے حصول کا تعین اور مستقبل میں ترقیاتی منصوبوں کی شراکت داری کیلئے ڈیویلپمنٹ پارٹنرز کو اپنے وعدے پورے کرنے کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس متحدہ عرب امارات میں ہونے والی کوپ 28 کانفرنس میں یورپی یونین کی طرف سے 275ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات نے 100 ملین ڈالر، امریکہ نے 17.5ملین ڈالر، جاپان نے 10ملین ڈالر، جرمنی نے 10ملین ڈالر اور دیگر 100رکن ممالک نے مجموعی طور پر 100ملین ڈالر سے زائد کی فراہمی کا اعلان کیا تھا۔ علاوہ ازیں رکن ممالک نے رواں دہائی کے آخر تک عالمی قابل تجدید توانائی کی پیداواری صلاحیت کو کم از کم گیارہ ہزار گیگا واٹ تک لانے جبکہ کانفرنس میں شریک تیل اور گیس پیدا کرنے والی 50بڑی کمپنیوں نے 2050 تک کاربن فری ہونے اور میتھین کا اخراج صفر کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا جس پر عملدرآمد شروع نہیں ہو سکا ۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مارچ میں جاری ہونے والی عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو سالانہ 4ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے اس کے باوجود پاکستان کو موسمیاتی آفات کے سنگین نتائج کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں سیلاب اور خشک سالی نے بنیادی ڈھانچے اور معاشی ذرائع کو تباہ کر دیا ہے جبکہ 2022 میں آنے والے سیلاب کے متاثرین کی بحالی کا عمل بھی تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔ اس حوالے سے پاکستان کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں جہاں ماحولیاتی سفارت کاری کے اہداف کا حصول یقینی بنانے کی ضرورت ہے وہیں صنفی مساوات کو فروغ دینے اور نجی شعبے کی شمولیت کے ذریعے اسمارٹ زراعت کے اقدامات کو فروغ دینا بھی ضروری ہے۔ واضح رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں فوسل فیول یعنی حیاتیاتی ایندھن کے بڑے پیمانے پر استعمال سے ہونے والے کاربن کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسکی وجہ سے دنیا کے ایک بڑے حصے میں پانی کی قلت اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلوں میں آگ لگنے کے بڑھتے واقعات بھی اسی صورت حال کا نتیجہ ہیں۔ علاوہ ازیں گلیشیرز کے پگھلنے اور سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے وسیع آبادیاں پانی میں غرق ہونے کے امکانات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کو بھی موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ اب ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اس حوالے سے درپیش چیلنجز کو نظر انداز کر سکیں۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ارضیاتی طور پر ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی آمدنی، رہائش، خوراک اور سلامتی کو خطرے میں ڈال چکی ہیں۔ اس سنگین صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا درجہ حرارت عالمی اوسط سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ آفات کے خطرے کی سطح کو ماپنے کے نظام انفارم رسک انڈیکس کی طرف سے 2024 ءمیں جاری کی گئی رینکنگ کے مطابق پاکستان 191ممالک میں سے 10ویں نمبر پر ہےجبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا شکار ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ اسلئے ہمیں ہر ممکن طریقے سے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے متحرک ہونے اور آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے کوپ29 کانفرنس کا پلیٹ فارم ایک موثر فورم ہے جہاں ہمیں اپنا کیس پوری شدت کیساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ملنے والے فنڈز کے شفاف استعمال کو یقینی بنائے تاکہ عالمی شراکت داروں کو ہماری کارکردگی پر سوال اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔