• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان حالیہ مذاکرات میں اہم پیشرفت کی اطلاعات حوصلہ افزا ہیں۔ ایف بی آر حکام کے دعوے کے بموجب کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا، پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی بھی نہیں لگے گا اور 12ہزار 970ارب روپے کا سالانہ ٹیکس ہدف برقرار رہے گا۔ آئی ایم ایف وفد کی پیر 11نومبر کو ناتھن پورٹر کی قیادت میں ہنگامی طور پر اسلام آباد آمد اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر سرکردگی پاکستانی اقتصادی منیجرز سے بات چیت کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں انکے بموجب جن امور پر اتفاق رائے ہواان میں زرعی ٹیکس کی وصولی اگلے برس سے شروع کرنے کا فیصلہ شامل ہے جبکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 8.8فیصد سے بڑھ کر 10.3فیصد ہونے پر آئی ایم ایف نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایف بی آر ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے اضافی ٹیکسز عائد نہیں کرے گا۔ بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کیساتھ ابھی مزید مذاکرات بھی ہونگے۔جہاں تک زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا سوا ل ہے اس پر عشروں سے مختلف سطحوں پر غور ہوتا رہا ہے مگر تاحال مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکےہیں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق ایک طرف قومی خزانے کو حاصل ہونیوالے محصولات سے ہے تو دوسری جانب ملکی زراعت کو ترقی دینے کے اہم ٹاسک سے ہے۔ اس باب میں حال ہی میں ایم او یوز پر دستخطوں کی صورت میں بیرونی سرمایہ کاری آنے کا راستہ کھلا ہے جس کے ذریعےزراعت کے جدید طریقے پاکستان میں متعارف ہونے کے امکانات بڑھے ہیں ۔یوں زرعی شعبے سے وابستہ افراد کی آمدنی بڑھنے اور دیہات میں زیادہ سہولتیں مہیا ہونے کی امیدیں نمایاں ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ تاجر دوست اسکیم میں کچھ تبدیلیوں پر بات چیت متوقع ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ تین ماہ میں ریٹیلرز سے 12ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا 4لاکھ نئے تاجروں نے ٹیکس گوشوارے جمع کرادیئے ہیں۔ رجسٹرڈ تاجروں کی تعداد دو لاکھ سے بڑھکر 6لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ کسٹمز انٹلیجنس اینڈ انویسٹی گیشن سے انفورسمنٹ واپس لے لی گئی ہے۔ البتہ کسٹم انٹلیجنس کا محکمہ برقرار ہے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر جلد فیملی انکم ٹیکس ریٹرن متعارف کرانے جارہا ہے جس کے تحت زیرو انکم ٹیکس ریٹرنز ختم کردی جائیں گی کیونکہ ان میں زیادہ لوگ ایسے ہیں جو ٹیکس اہلیت کے زمرے میں نہیں آتے۔ یقیناً اور بہت سے اقدامات بھی کئے جائیں گے مگر آئی ایم ایف وفد کے خیال میں سعودیہ سے 3کھرب 33ارب کی تیل کی سہولت کو ریکوڈک کے اربوں ڈالرکے معاہدے سے جوڑا جاسکتا ہے۔کئی اہم معاملات میں حکومتیں ایک سے زائد پلان بناتی ہیں۔ اس باب میں متبادل پلان سے سردست آئی ایم ایف کو مطلع کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ملک کو درپیش موجودہ کیفیت کا ایک پہلو مالیاتی اداروں کی شرائط ہیں جن سے عہدہ برآمد ہونے کا کٹھن مرحلہ بھی گزر جائے گا مگر خط غربت سے نیچے جانے والی آبادی کی بڑی تعداد منتظر ہے کہ ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ سے ٹیکس لینے اور وسائل سے محروم لوگوں پر خرچ کرنے کے موثر اقدامات کب کئے جائینگے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بعض سرکاری محکموں میں موجود افراد ایسے بھی ہیں جن کی رشوت ستانی کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد پریشانیوں کی شکار ہے۔لوگ پوچھتے ہیں کہ کرپشن کے خاتمے کے عشروں سے جاری دعوے کب حقیقت کا روپ دھاریں گے۔ اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس امر کا ادراک رکھتی ہے اور اس باب میں کچھ نہ کچھ کاوشیں جاری بھی ہیں۔ ان کاوشوں کو مزید تیز کیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین