• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طالبان نے اپنی مفروضہ جنگ بندی کی دس روزہ میعاد ختم ہونے کے پانچ روز بعد اعلان کیا کہ وہ جنگ بندی میں توسیع نہیں کر رہے البتہ مذاکرات جاری رہیں گے۔ ایک روز بعد کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں امن مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ البتہ یہ ٹکڑا بھی لگایا گیا کہ کسی جارحانہ کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ اخباری اصطلاح میں اسے دلچسپ صورت حال کہا جاتا ہے، درحقیقت یہ تشویش ناک صورت حال ہے ۔ جنوری کے آخری ہفتے میں حکمران جماعت کی پارلیمانی کمیٹی نے اکثریت رائے سے شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک روز بعد وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں مذاکرات کا اعلان کر دیا۔ مہینے بھر کی کشمکش کے بعد طالبان نے یکم مارچ کو ایک ماہ کے لئے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اپریل کی چار تاریخ کو اس جنگ بندی میں دس روز کی توسیع کا اعلان کیا گیا۔ اس دوران حکومت کی طرف سے طالبان کے کچھ ’’غیر عسکری‘‘ قیدی رہا کرنے کا اعتراف کیاگیا ۔ قبل ازیں اعلان کیا گیا تھا کہ کسی حکومتی ادارے کی تحویل میں کوئی غیرعسکری قیدی نہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ رہا ہونے والے افراد اس فہرست میں نہیں تھے جو انہوں نے حکومت کو پیش کی تھی۔ پروفیسر ابراہیم فرماتے ہیں کہ حکومت نے جو قیدی چھوڑے ان کی فہرست فراہم نہیں کی گئی۔کبھی ان افراد کی تعداد 19 بتائی گئی تو کبھی 27 ۔ پاکستان کے لوگوں کو البتہ اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ انہیں رہا ہونے والوں کا نام، پتہ بتایا جائے۔ اس دوران دہشت گردی کی وارداتیں جاری رہیں۔ راولپنڈی کی فروٹ منڈی میں درجنوں شہری جاں بحق ہوئے۔ پشاور کے گلی کوچوں میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں گرائی جاتی رہیں۔ زواری چوک سے ملنے والی ماسٹر یونس کی لاش پر پرچی ٹانکی گئی کہ آٹھ بجے تک کوئی اس لاش کو اٹھانے کی جرأت نہ کرے۔ وادی تیراہ کے میلے سے 110 افراد اغوا کیے گئے۔ ان میں سے کتنے چھوڑ دئیے گئے اور کتنے اغوا کنندگان کی تحویل میں ہیں ، ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ طالبان کے پاکستانی حامی البتہ چہک چہک کر اعلان کرتے رہے کہ طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد نے فروٹ منڈی میں دھماکے کی مذمت کی ہے۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ طالبان نے ایک بھی مغوی پاکستانی کو رہا کرنے کا عندیہ نہیں دیا۔ تین ماہ کی مشق کا نتیجہ یہ ہے کہ طالبان نے اپنے کچھ مطالبات منوا لئے۔ پاکستان کے لوگوں کو یہ بہلاوا دیا گیا تھا کہ مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی ہے اور قتل و غارت کا سلسلہ تھم گیا ہے۔ لیجئے، جنگ بندی طالبان نے واپس لے لی۔ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس موقع پر مداری کہتا ہے کہ اب بچہ لوگ تالی بجائیں۔
مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا تو کچھ روز حکومت کی ابتدائی کمیٹی کے ارکان بھی نظر آئے اور پھر آخر شب کے ستاروں کی طرح ایک ایک کر کے ڈوب گئے۔ دوسری کمیٹی تو سرکاری افسروں پر مشتمل تھی۔ ایک رستم خان مہمند باقی بچے۔ ان کے بارے میں رپورٹ پٹواری غیر واضح ہے کہ وہ مذاکرات میں دراصل کس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ البتہ سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم، مولانا عبدالعزیز ، یوسف شاہ کی خوب بن آئی۔ ہر روز ایک بیان دیتے ہیں۔ شام کو ٹیلی ویژن کیا سکرین پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ پاکستان کی ریاست کی بنیادوں پر کدال چلاتے ہیں۔ شدت پسندوں کی حرم سرا میں سہرے کی لڑیاں ٹانکتے ہیں۔ طالبان کے دو گروہوں میں لڑائی ہوئی۔ درجنوں افراد مارے گئے۔ راکٹ چلے۔ آگ برسی۔ یوسف شاہ فرماتے ہیں ۔ معمولی غلط فہمی تھی دور کر دی گئی۔ اب جنگ نہیں ہو گی۔ یوسف شاہ نہ ہوئے،اسمبلیاں توڑنے کی حمایت کرنے والے وکیل ہو گئے۔ شاہد اللہ شاہد فرماتے ہیںکہ اس علاقے میں کچھ ساتھیوں کے درمیان بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے تلخی پیدا ہوئی تھی جس کو ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ نے فوری طور پر مداخلت کر کے حل کر دیا ہے۔ میڈیا کچھ بھائیوں میں اختلاف کو بڑھا چڑھا کے بیان کر رہا ہے۔ ادھر میران شاہ کے بازار میں ملا عمر کا فرستادہ پمفلٹ گردش کر رہا ہے جس میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ محسود طالبان کے مابین جنوبی وزیرستان کی امارت کے معاملے پر جاری لڑائی کو ختم کرنے کے لئے دعا کریں۔ لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ اس لڑائی کے خاتمے کے لئے وہ دعا کریں جو پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے لئے مانگی تھی۔ وزیرستان تو چھوٹا سا قبائلی ٹکڑا ہے۔ پاکستان کی ریاست کے پاس آئین کی صورت میں پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ کار موجود ہے۔ ابھی پچھلے برس ہم نے ایک حکومت کو ختم کرکے سلیقے سے دوسری حکومت قائم کی تھی۔ اگلے روز سابق صدر آصف علی زرداری اور موجودہ وزیراعظم نواز شریف نے ملاقات کی ہے۔ جمہوریت میں اختلاف رائے ہوتا ہے، اس کا فیصلہ ووٹوں سے کیا جاتا ہے۔ چھوٹی سی غلط فہمی نہیں ہوتی جس کا فیصلہ راکٹ لانچروں سے کرنا پڑے۔
طالبان کی تحویل میں تین مظلوم مغویان کے نام سامنے آئے تھے۔ شہباز تاثیر، علی حیدر گیلانی اور پروفیسر اجمل۔ (پاکستانی فوج کے درجنوں جوانوں کا ذکر کرنے کی کسی نے زحمت نہیں کی۔ )طالبان نے واضح کر دیا کہ یہ تینوں افراد عسکری قیدی ہیں کیونکہ ان کا تعلق طالبان کی مخالف سیاسی جماعتوں سے ہے۔ پھر واضح کیا گیا کہ یہ لوگ ہمارے پاس نہیں ہیں ہم نے انہیں اغوا نہیں کیا۔ پھر صورتحال کو مزید شفاف کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ ان لوگوں کی رہائی پر غور ہو رہا ہے۔ اسی دوران میں پروفیسر ابراہیم صاحب نے لاڑکانہ میں بلاول زرداری کی تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے قائدین اپنی زبان کنٹرول کیوں نہیں کرتے۔ طالبان کے دیگر وکلا کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا مگر پروفیسر صاحب تو تعلیم یافتہ آدمی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جمہوریت میں زبان یعنی دلیل ہی واحد جائز ہتھیار ہے۔ جمہوریت دلیل کی آزادی کا نام ہے۔ البتہ جہاں جمہوریت نہیں ہوتی وہاں دلیل پر پابندی ہوتی ہے اور تلواریں نیام سے نکل آتی ہیں۔ اس میں میران شاہ یا بغداد کی کوئی قید نہیں۔ مگر پروفیسر ابراہیم سے یہ بات کیوں کہی جائے ، دلیل تو پھول کی پتی ہے جس سے صرف ہیرے کا جگر کٹ سکتا ہے، تعصب کے پتھر میں جونک نہیں لگتی۔ پاکستان کے شہریوں کو ایک دوسرے سے سوال کرنا چاہئے کہ ہمیں دلیل کی ثقافت چاہئے یا بارود کی تباہی،ہمیں حکومت چلانے کے لئے پارلیمنٹ کا فلور درکار ہے یا جرگے کی روایت جہاں قبیلے کا سردار تین بچیوں کا خون 83لاکھ میں بیچ دے۔ ہمیں انتقال اقتدار کے لئے ووٹ کا طریقہ کار چاہئے یا ہمیں ظلم سے نجات کے لئے قدیم دعائوں پر بھروسہ کرنا ہے۔ یہ جمہوریت اور طالبانائزیشن کا اختلاف ہے۔
دہشت گردی تو طالبانائزیشن کا طریقہ کار ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم طریقہ کار سے تو اختلاف رکھیں اور فلسفے کو قبول کریں۔ مذاکرات کی راہ اختیار کر کے ہمیں آمادہ کیا جا رہا ہے کہ ہم دہشت گردی سے بچنے کے لئے طالبانائزیشن کو قبول کر لیں۔ مشکل یہ ہے کہ طالبانائزیشن کو اپنے قیام کے لئے بھی دہشت گردی کی ضرورت ہے اور اس کا تسلسل بھی جنگ کا تقاضا کرتا ہے۔ افغانستان سے یمن اور لیبیا سے شام تک یہ تاریخ کا سبق ہے ۔عراق کی مثال بھی موجود ہے جہاں بالآخر آگ اور خون کے دریا سے گزر کر شدت پسندوں سے نجات حاصل کی گئی۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ مذاکرات کے ذریعے امن کے نام پر طالبانائزیشن کو تسلیم کرنا ہے یا جمہوریت کے ذریعے پرامن اور خوشحال پاکستان کی طرف جانا ہے۔
تازہ ترین