یہ اُس فسوں گر کا قصّہ ہے، جس کی دُھن شہر کے باسیوں پر جادو پُھونک دیتی، اور وہ اپنے کام کاج، گھر بار چھوڑ، اُس کی سمت دوڑے چلے جاتے۔ وہ شہر کی گلیوں، بازاروں سے گزرتا، سامعین اُس کے پیچھے پیچھے چلتے جاتےاور وہ اُنھیں لیے جاتا، ماضی کی اُن راہ داریوں کی سمت، جہاں گنگا جمنی تہذیب کا سُرخیل، انتظار حسین ہمارا منتظر ہے۔
اُن پگڈنڈیوں پر، جہاں کسی چٹان پر بیٹھا عبداللہ حُسین اُداس نسلوں کا نوحہ لکھتا ہے۔ اُن غاروں میں، جن کی دیواروں کو صادقین کے فن نے جیوت کر دیا۔ وہ ہمیں الاؤ کے گرد بیٹھے اُن صحرانوردوں تک لے جاتا، جو نور جہاں کی آواز کے طلسم میں یوں کھوئے ہیں کہ کچھ دیر کو اُن پر بُت ہونے کا گمان ہونے لگتا۔ اور پھر وہ ہمیں لے جاتا، لکشمی مینشن۔ وہ مکان، جہاں اُس کابچپن سانس لیتا ہے، جہاں اُس کی بانسری کی ابتدائی دُھنوں کا جنم ہوا، جہاں وہ اب بھی کہیں موجود ہے۔
اوروہاں پہنچ کرمستنصرحسین تارڑ، عہدِحاضر کا اہم ترین ادیب، جسے سب سے زیادہ چاہا گیا، سب سے زیادہ پڑھا گیا، مزید مستنصرحسین تارڑ نہیں رہتا، ایک نوجوان بن جاتا ہے، جو عشروں قبل گھر سے کٹورا لیے، دہی لینے نکلا تھا کہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کے مصنف سعادت حسین منٹو نے اُسے روک لیا۔ ’’پیسٹری کھاؤ گے؟‘‘ مستنصر حسین تارڑ کی اس نئی کتاب ’’باتاں ملاقاتاں‘‘ کا ورق ورق ناسٹیلجیا کے عِطر سے مہکتا ہے۔ کتنی ہی عجب یادیں ہیں۔
یادیں، جو ہمیں صادقین سے ملواتی ہیں، جو ایک چھوٹے سے، عام سے فلیٹ میں رنگوں سے طلسم جگاتےتھے، جن کی انگلیاں خطّاطی کرتے کرتے ٹیڑھی ہوگئی تھیں، جو تنہا سڑک پارکرتے ہوئے گھبرا جاتے تھے، قلم کی معمولی جنبش سے زنانہ فارمز میں زندگی جگاتے تھے۔ کبھی روٹھ جاتے، اور پھر مان جاتے تھے۔ اور پھر تارڑ ہماری ملاقات منٹو سے کرواتے ہیں، اور ساتھ ہی ہم ملتے ہیں، لکشمی مینشن سے۔
مگر اِسے ملنا تو نہ کہیے کہ تارڑ جیسے قلم کار کے جنبشِ قلم کا مطمحِ نظر یہ نہیں کہ ہم کسی سے ملیں، بلکہ وہ ہمیں اُس شے، اُس فرد، اُس جگہ کا، جس کا وہ تذکرہ کرتے ہیں، کامل احساس دلانا چاہتے ہیں۔ اُس کے رنگ و بُو، اُس کی موجودگی، اُس کی عدم موجودگی، اس کے کُل کو ہمارے اندر جگانا چاہتے ہیں۔ اور ایسا ہی وہ لکشمی مینشن کے ساتھ کرتے ہیں۔
ہم اِس کتاب میں صرف منٹو سے نہیں، بلکہ اُس کے اہلِ خانہ سے بھی ملتے ہیں۔ منٹو کی بیوی صفیہ سے، اُس کی تین بیٹیوں سے، جو تارڑ صاحب کی درخواست پر نجی ٹی وی کے پروگرام ’’داستان سرائے‘‘ میں چلی آتی ہیں، ایک ڈائری لے کر۔ اور اُس اسکول کے فنکشن کی دل چسپ یادیں لیے، جہاں منٹو کو مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا، اور برصغیر کے اِس عظیم کہانی کار کو ڈیسک جوڑ کر بنائے گئے اسٹیج پر براجمان کردیا گیا۔ اور وہ اسٹیج مسلسل ہلے جاتا تھا، اور یہ دھڑکا لگارہتا کہ وہ ابھی گر جائے گا۔
اِس حصّے میں ہم تارڑ صاحب کے، منٹو کی زندگی پر بننے والی دو فلموں پر تبصرے بھی پڑھتے ہیں، اور ساتھ ہی بہت بعد میں، جب لکشمی مینشن اُجڑ گیا تھا، یا پھر کم ازکم ویسا نہیں رہا تھا، جیسے ’’بہائو‘‘ کے اس مصنف کے خیالات میں ہُمکتا تھا، تو اُس دورے کی بھی رُوداد ملتی ہے، جب تارڑ صاحب دہائیوں بعد لکشمی مینشن جاتے ہیں، اور یادیں پلٹ پلٹ کر آتی، اور ان کے پیروں سے لپٹ جاتی ہیں۔
اُن کے قلم سے نکلے انتظار حسین اور عبداللہ حسین کے احوال میں جہاں دل چسپ واقعات کے ٹکڑے جڑے ہیں، وہیں فِکشن کے تین حسین (انتظار حسین، عبداللہ حسین اور مستنصر حسین تارڑ) کے درمیان ادب سے وابستہ نوک جھونک کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں، جو لُطف تو دیتی ہیں،مگرساتھ ہی ہم جیسےنوآموز لکھاریوں کو یہ بھی سکھاتی ہیں کہ وہ لوگ، جنھوں نے اُردو فِکشن کا باراپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھا تھا، کیسےایک ہی شہر میں چلتے پِھرتے تھے، کیسے ایک ساتھ مختلف عمارتوں کے زینے اُترتے، چڑھتے تھے۔
وہ کون تھے، کیا تھے اور کیا نہیں تھے۔ انتظار حسین اور عبداللہ حسین کے خاکوں میں موت کے نشان جا بہ جا موجود ہیں۔ اور وہ تو یوں بھی تارڑ کے فِکشن کا خاصّہ ہے۔ پرندے، پانی اور موت: ایک تکون، فِکشن جس کی چوتھی جہت ہے۔ تو انتظار صاحب اور عبداللہ حسین کی ضعیفی، اُن کی بیماری، اسپتال کے بستروں پر اُن کے چہروں پر اُترنے والی اجنبیت، اور اُن کے چلے جانے کا کرب، جس طرح بیان ہوتاہے، وہ قاری کےاندرکہیں گہرائی میں اُترتا چلاجاتا ہے۔
تارڑ صاحب کی اپنی بیماری کا احوال، اور اِس دوران انتظار صاحب اور عبداللہ حسین کی فکرمندی، ان کا اسپتال آنا، یہ ایسی یادیں ہیں، جنھیں تارڑ صاحب ہی قلم بند کرسکتے تھے۔ اوروں کےلیےشاید یہ ممکن نہیں۔ مگر یہاں فقط موت تو نہیں ہے۔ کتنا کچھ ہے، جوزندگی سےدمکتا ہے۔ صادقین کا ’’نکلے تری تلاش میں…‘‘ کا ٹائٹل بنانے کا دل چسپ قصّہ، جسے آخری لمحات میں ایک حسینہ لے اُڑتی ہے، انتظار صاحب کی کتاب ’’کچھوے‘‘پر تارڑصاحب کاریڈیائی تبصرہ، جوانتظار صاحب کبھی نہیں بھولے، اور ہمیشہ اپنی بدھ بھکشو والی مسکراہٹ میں تارڑ صاحب کو یاد دلاتے رہے۔
عبداللہ حسین سے تارڑ صاحب کی اپنی کتاب ’’فاختہ‘‘ کی تقریبِ رونمائی کے موقعے پر پہلی ملاقات، اور پھر اس دراز قد ادیب کو موٹر سائیکل پر لیے شہر میں گُھومنا، منٹو کے گھرسےسرکارکی بےاعتنائی منظر کرنا، یا میڈم نورجہاں کا کھانے کو نفاست سے پیش کرنے کا ہنر، یہاں بہت کچھ ہے… ہر پیراگراف میں، ہر سطر میں۔
اِس کتاب کا متن، اُن متون کا تسلسل ہے، جن کے ہم گرویدہ ہیں…یہ ہمیں اُن لوگوں سے مِلواتا ہے، جو ہمارے دل میں دھڑکتے ہیں، جو ہماری رگ و پے میں سما چُکے ہیں، جن سے ہم عشق کرتے ہیں۔ ہم اُن کا انتظار کرتے ہیں، اُن کے ساتھ اُداس ہوتے ہیں، اُن کے گیت سُنتے ہیں، اُنھیں میورل بناتے، ادب تخلیق کرتے، اور آخر میں دھواں ہوتے بھی دیکھتے ہیں۔
دھواں چَھٹتا ہے، تو ہمیں ایک قلم کار دکھائی دیتا ہے، جو لکھنے کی میز پر بیٹھا ہے۔ یہ قلم کار، جس کا نام مستنصر حسین تارڑ ہے، ایک دُھن بجا رہا ہے، جس کےہم سب گرویدہ ہیں۔ وہ اپنے جادوئی قلم سے اُن باکمال افراد کی بابت لکھ رہا ہے، جن کی بابت اب کوئی اور نہیں لکھے گا کہ ہماری یادداشت کھوٹی ہوئی، اور ہماری یادوں کو زنگ لگ گیا۔
صاحبو، تارڑ صاحب کی یادیں، اُن کے لکھے خاکے، جو ’’باتاں ملاقاتاں‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئے، ایک ایسی کتاب ہے، جو ہمارے لیے لکھی گئی ہے، جو دل پذیر ہے، اور جو ہمیں ایک عرصے تک لُبھاتی رہے گی۔