بنتِ صدیقی کاندھلوی، کراچی
کوئی بھی فرد معاشرے کی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی سے آئندہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ لہٰذا، کسی فرد کی خوبیاں و خامیاں اس کی آئندہ نسل کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ جس طرح اوصافِ حمیدہ کے اثرات نسل درنسل رگ و ریشے میں منتقل ہوتے رہتے ہیں، اسی طرح اخلاقِ رذیلہ و ذمیمہ کے اثرات بھی دیرپا ہوتے ہیں اور پھر انہی کے زیرِ سایہ نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔
مطلب، اگر اعلیٰ اوصاف کے حامل افراد معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں، تو برُی خصلتوں کے شکار سماج کا ناسور بھی بن جاتے ہیں۔ اوصافِ حمیدہ میں ایک اعلیٰ وصف حیا ہے۔ حیا، ایمان کا لازمی جُزو اور بنیادی و امتیازی خصوصیت ہے۔جہاں حیا نہ ہو، وہاں پرہیزگاری بھی نہیں ہوتی اور جہاں زُہد و تقویٰ کا فقدان ہو، وہاں دل بھی مُردہ ہوجاتے ہیں۔
آج سے چار، پانچ دہائیاں قبل نوجوانوں کا اپنے بزرگوں کی موجودگی میں کوئی مخرّبِ اخلاق حرکت کرنا تو دُور، ایسی کوئی چیزدیکھنا بھی سخت بےادبی و بےحیائی کے زمرے میں آتا تھا۔ نوجوان سرِمحفل ناچ گانے، موویز دیکھنے سے ہچکچاتے اورحدِ ادب ملحوظِ خاطر رکھتے تھے۔ مگر آج کا نوجوان تو گویا ساری شرم و حیا، لحاظ و مروّت اور ادب آداب بالائے طاق رکھ کر اپنی خواہشات کی تکمیل میں سرگرداں ہے۔
اُسے نہ اپنے بڑوں کا کوئی ڈر ہے اور نہ اپنی اقدار کا پاس۔ وہ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جانے پرآمادہ ہے۔ اور ہمارے خیال میں نوجوانوں کو اِس حد تک خود سَر، بدتہذیب بنانے میں ہمارے ڈراموں، فلموں اورناچ گانوں کا بھی بڑا کردار ہے، کیوں کہ آج کل پیش کیے جانے والے بیش ترڈرامے، فلمیں یا دیگر تفریحی سرگرمیاں محض عشق و محبّت ہی کے گرد گھومتی ہیں۔
نیز، یہ نوجوانوں کو اُن کی مذہبی و اخلاقی اقدار سے بھی دُور کر رہی ہیں، اور خصوصاً سوشل میڈیا اس بے حیائی و فحاشی کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ واضح رہے، یہ نام نہاد لبرل ازم، مادر پدر آزاد سیکولر ذہنیت یورپی اقوام کا طرزِحیات ہے، ہمارا نہیں۔
انسانی حقوق، آزادی نسواں کی آڑ میں اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں
مشرقی و مغربی تہذیب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مغرب میں عقیدۂ آخرت، روزِ جزا کا کوئی تصوّر نہیں، جب کہ ہم بہ حیثیتِ مسلمان، اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے احکامات کے پابند ہیں۔ ہم روزِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور سزا و جزا کو مدِنظر رکھ کر ہی پوری زندگی گزارتے ہیں۔ ہماری اپنی دینی روایات و اقدار ہیں۔ ہمارے ہاں ہر رشتے کا الگ تقدّس ہے، جب کہ مادر پدر آزاد مغربی معاشرے میں خونی رشتوں اور خاندانی نظام کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔
سو، آج انسانی حقوق اور آزادیٔ نسواں کی آڑ میں بھی اسلامی تعلیمات اوراصولوں کی جو دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ نیز، خود مختاری کے نام پر جس طرح عورت کو چادر و چاردیواری سے دُور کیا جا رہا ہے، یہ بھی ہرگز ہرگز ہماری تہذیب و ثقافت نہیں بلکہ ہمارے نزدیک تو یہ مختلف عالمی ایّام، مثلاً یومِ خواتین، مدرز ڈے، فادرز ڈے کے نام پر بہت زورو شور سے حقوقِ نسواں کا پرچار کرنے والے بھی ’’خالی چنا، باجےگھنا‘‘ کے مترادف محبت والفت کے جذبات و روحانیت سے یک سرعاری ہیں۔
اور یہ بھی اِسی مغربی پراپیگنڈے کا اثر ہے کہ آج ایک مسلمان پاکستانی عورت اپنے شوہر، باپ اور بھائی کے مدِمقابل آ کھڑی ہوئی ہے، حالاں کہ انہی رشتوں نے تو اُسے مستور و محفوظ کررکھا ہے۔ عالم یہ ہے کہ آج ’’الرّجال قوامون‘‘ کا تصوّر ہی ختم ہوگیا ہے اور یہ سب مغربی تہذیب کی یلغار ہی کی بدولت ہے۔
آج کی عورت وفاداری، گھرداری اور سلیقہ شعاری چھوڑ کر محض پیسا کمانےمیں مصروفِ عمل ہے، حالاں کہ ہماری اقدار و تہذیب کے مطابق شادی کے بعد ایک لڑکی کی زندگی کا اصل مقصد ایک گھر، خاندان اور نسل کو مضبوطی و تقویت فراہم کرنا ہے کہ درحقیقت ایک عورت ہی اپنے خاندان کو سنوار بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی۔ اور خاندان کی تعمیر و تشکیل اُسی صُورت ممکن ہے کہ جب وہ قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو، جب کہ اس کے برعکس آج کل سوشل میڈیا پہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسلامی اقدار و تشخّص کے قطعاً منافی ہے۔
نیز، زیادہ ترڈراموں، فلموں میں بھی کُھلےعام بیویوں کو اپنے شوہروں کی ہم سری اور اُن سے بدتمیزی کی تعلیم دی جا رہی ہے، حالاں کہ ہم اِسی فنونِ لطیفہ اور ذرائع ابلاغ کو بآسانی انتہائی اعلیٰ مقاصد کے لیے بھی استعمال میں لاسکتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہےکہ یہ فریضہ انجام کون دے۔
ہر دوسرا شخص تو بھیڑ چال کا شکار ہے۔ جب ہرایک کی اولین ترجیح صرف اور صرف’’ پیسا‘‘ ہوگی، تو اپنے اخلاق و کردار کی تعمیر اور پھر لامحالہ معاشرے کے سنوار کا بیڑہ کون اُٹھائے گا۔ ہر ایک دوسرے ہی کو موردِ الزام ٹھہراتا رہے گا کہ ؎ اپنے کردار پہ ڈال کے پردہ اقبال… ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے۔