لاہور، جمعرات کا دن، 26 نومبر 1964ء، شام تقریباً چار بجے، پاکستان ٹیلی ویژن کی اسکرین پر قاری علی حسین صدیقی نمودار ہوئے، تلاوتِ قرآنِ پاک کی اور اِس کے ساتھ ہی پاکستان میں بھی ٹی وی نشریات کا آغاز ہوگیا۔یہ شروعات دو پائلٹ اسٹیشنز کے ذریعے ہوئی۔ دوسرا پائلٹ اسٹیشن25دسمبر 1964ء کو ڈھاکا میں قائم کیا گیا۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن کے قیام کے ضمن میں بتایا جاتا ہے کہ اِس سلسلے میں پہلی کوشش 1952ء میں کی گئی تھی، جو ناکام رہی۔ بعدازاں کراچی میں، جو اُس وقت مُلک کا دارالحکومت تھا، 1955ء میں امریکی سفارت خانے کے تحت ایک ماہ تک ٹی وی نمائش کا اہتمام کیا گیا، جس میں لائیو اور ریکارڈڈ پروگرامز دِکھائے گئے، جب کہ 1962ء میں فلپس الیکٹرانک کمپنی نے سوا ماہ تک شہر کے مختلف علاقوں میں نصب دوسو کے قریب ٹی وی سیٹس پر غیرمُلکی اور اُردو پروگرامز دِکھائے۔ اِن نمائشوں سے عوام میں ٹی وی دیکھنے کا شوق بڑھا۔
قبل ازیں، اکتوبر 1960ء میں ایوّب کابینہ مُلک میں ٹی وی اسٹیشن کے قیام کی منظوری دے چُکی تھی، جب کہ 1961ء میں صدر ایّوب کے جاپان کے دورے کے دَوران پاکستان میں ٹیلی ویژن کے قیام کے سلسلے میں پیش رفت ہوئی۔پاکستان نے لاہور اور ڈھاکا میں دو پائلٹ اسٹیشن بنانے کے لیے جاپان کی نیپان الیکٹرک کمپنی کے ساتھ ایک معاہدے پر دست خط کیے۔دونوں اسٹیشن 1964ء میں قائم ہوگئے اور اُسی برس لاہور سے ایک کمرے کے سیٹ اَپ سے بلیک اینڈ وائٹ اسکرین کے ساتھ،26نومبر کو نشریات کا آغاز کردیا گیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پی ٹی وی کے ابتدائی دفاتر الحمرا آرٹس کاؤنسل کی پرانی عمارت کے لان میں خیمے لگا کر قائم کیے گئے تھے۔1967ء میں کراچی میں اسٹیشن قائم ہوا، جو اِس لحاظ سے اہم موڑ تھا کہ یہ پہلا مکمل اور جدید ٹی وی اسٹیشن تھا۔اب کراچی اسٹیشن کے ساتھ تھانہ بولا خان، شکارپور، نور پور اور ٹنڈو الٰہ یار کے چار ری براڈ کاسٹ اسٹیشن بھی منسلک ہیں۔ 1967ء ہی میں راول پنڈی میں ٹی وی اسٹیشن قائم ہوا۔اِن دونوں اسٹیشنز میں ریکارڈنگ کی سہولت دست یاب تھی۔
واضح رہے، اِس سے قبل پی ٹی وی کے پروگرام لائیو ہی نشر کرنے پڑتے تھے۔ 1974ء میں پشاور اور کوئٹہ سینٹرز وجود میں آئے۔ 5 فروری 2004ء کو مظفّرآباد (آزاد کشمیر) میں ٹی وی اسٹیشن قائم ہوا، تو8 مارچ 2008ء کو ملتان کے حصّے میں پی ٹی وی مرکز آیا، جو اب تک کا آخری ٹی وی اسٹیشن ہے۔
اِس وقت پی ٹی وی 9 مختلف شکلوں میں زیادہ سے زیادہ سامعین تک رسائی کے لیے کوشاں ہے، جن میں پی ٹی وی ہوم، پی ٹی وی نیوز، پی ٹی وی ورلڈ، پی ٹی وی اسپورٹس، پی ٹی وی گلوبل، پی ٹی وی نیشنل، پی ٹی وی بولان، پی ٹی وی آزاد جمّوں و کشمیر اور پی ٹی وی پارلیمنٹ شامل ہیں۔
سرکاری ٹی وی کی ویب سائٹ کے مطابق، پاکستان ٹیلی ویژن کی 1964ء میں نشریات صرف9.32 فی صد عوام میں دیکھی جاتی تھیں، جو صرف ایک فی صد مُلکی رقبے پر مشتمل تھیں، جب کہ پی ٹی وی کی آمدن ڈیڑھ لاکھ روپے تھی۔
صرف دس برسوں میں، یعنی 1974ء تک، پاکستان ٹیلی ویژن کی رسائی 48 فی صد ناظرین تک ہوگئی، جو16 فی صد علاقوں پر مشتمل تھی۔ اِس عرصے میں پی ٹی وی کی آمدن پونے تین کروڑ روپے تک جا پہنچی۔پی ٹی وی کی دوسری دہائی یعنی1984 ء تک80فی صد آبادی اور34فی صد علاقوں تک اس کی نشریات کی رسائی ہوگئی، جب کہ آمدن 22 کروڑ سے تجاوز کر چُکی تھی۔جب کہ اب پی ٹی وی کی مُلک کی 92 فی صد آبادی تک رسائی ہے۔
پی ٹی وی پر اردو کے ساتھ، علاقائی زبانوں میں بھی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔ پی ٹی وی نیوز پر اردو، کشمیری، عربی اور انگریزی زبان میں نیوز بلیٹن پیش کیے جاتے ہیں، جب کہ رات9بجے اُردو میں’’خبرنامہ‘‘ نشر ہوتا ہے۔نیز، شام چھے بجے کے بعد تمام نیوز بلیٹن قومی نیٹ ورک پر نشر کرنے کے ساتھ سیٹلائٹ کے ذریعے 38 ممالک میں دیکھے جاتے ہیں۔
اگر انتظامی ڈھانچے کی بات کریں، تو حکومتِ پاکستان کی جانب سے قائم کردہ ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز ادارے کا انتظام چلاتا ہے، جب کہ حکومت کی جانب سے تعیّنات اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے توثیق کردہ منیجنگ ڈائریکٹر انتظامی امور کا سربراہ ہوتا ہے۔
پی ٹی وی نے30 ملازمین کے ساتھ کام کا آغاز کیا تھا، جن کی تعداد اب چھے ہزار سے تجاوز کر چُکی ہے اور ان ملازمین کو 9گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے، جب کہ ہر گروپ کا پے اسکیل بھی الگ ہے۔منیجنگ ڈائریکٹر کی سربراہی میں چھے ڈائریکٹرز پر مشتمل ایڈیٹوریل بورڈ نشرہونے والے مواد کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔پی ٹی وی فلم سنسر بورڈ 1968ء میں قائم کیا گیا، جب کہ 1980ء میں اسے ایک الگ ادارہ بنادیا گیا۔
1964ء سے 2000ء تک عوام کے لیے تفریح، تعلیم و تربیت اور معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ پی ٹی وی ہی تھا۔ اِس کے ڈرامے اپنے اعلیٰ ترین معیار کی وجہ سے نہ صرف اندرونِ مُلک بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی پسند کیے جاتے تھے۔ شاید آج یہ بات عجیب سی محسوس ہو، مگر یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی وی پر کئی ڈراموں کے نشر ہونے کے موقعے پر گلیوں میں سناٹا ہوجاتا کہ لوگ سارے کام کاج چھوڑ چھاڑ کر ٹی وی سیٹس کے سامنے جَم جاتے۔
ممکن ہے کہ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ عوام کے پاس تفریح کے لیے پی ٹی وی کا کوئی متبادل نہیں تھا، مگر ڈراموں کے اعلیٰ معیار اور بہترین پیش کش سے بھی انکار ممکن نہیں۔ خدا کی بستی،انکل عرفی، کرن کہانی، شمع، وارث، چاند گرہن، دیواریں، اندھیرا اُجالا، الف نون، ففٹی ففٹی، اَن کہی، سونا چاندی، جنگل، دھوپ کنارے، تعلیمِ بالغاں اور تنہائیاں جیسے ڈرامے، انور مقصود، معین اختر، ضیاء محی الدّین اور طارق عزیز کے شوز عوام کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتے۔
یہاں تک کہ لوگ آج بھی ان پروگرامز کے اثر سے باہر نہیں نکل سکے کہ جب بھی پاکستانی ڈراموں کی بات ہوتی ہے، تو ان کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔البتہ، پی ٹی وی کا نو بجے کا خبرنامہ شروع ہی سے تنقید کی زَد میں رہا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ عوام پہلے بھی اسے’’ حکومت نامہ‘‘ہی کہتے تھے اور آج بھی اس سے متعلق عوامی تاثر یہی ہے۔عوام یہ خبرنامہ سُنتے تو تھے، مگر ریڈیو پر بی بی سی بھی سُنتے کہ اُنھیں پی ٹی وی کے خبرنامے پر زیادہ اعتماد نہیں تھا اور نہ آج ہے۔
عوام اب خبروں کے لیے نجی ٹی وی چینلز سے رجوع کرتے ہیں۔بہرکیف، پی ٹی وی کی تین دہائیوں پر مشتمل اجارہ داری کو پہلی بار اُس وقت للکارا گیا،جب 1990ء میں بے نظیر بھٹّو کے دورِ حکومت میں نجی ٹی وی، پی ٹی این نے اپنی نشریات کا آغاز کیا، جو 24گھنٹے جاری رہتی تھیں۔ اس پر امریکی نیوز چینل، سی این این کی نشریات بھی دِکھائی جاتی تھیں۔
بعدازاں، اسے ایس ٹی این کا نام دیا گیا، مگر یہ تجربہ کچھ زیادہ کام یاب نہ رہا اور 1999ء میں یہ چینل تو بند ہو گیا، لیکن اگلے ہی برس پی ٹی وی کو ایک ایسی کُشتی لڑنی پڑی، جس میں وہ کچھ اِس طرح چِت ہوا کہ24 برسوں سے سرتوڑ کوشش کے باوجود اُٹھ نہیں پا رہا۔
دراصل، 2000ء میں پاکستان میں نجی نیوز چینلز کا ایک ایسا ریلا آیا، جس نے پی ٹی وی کا خیمہ تقریباً اُکھاڑ ہی پھینکا کہ اِن چینلز نے خود کو محض خبروں ہی تک محدود نہیں رکھا، بلکہ تفریح، کھیل اور موسیقی کے ساتھ، خاصے معیاری اور منفرد مذہبی پروگرامز بھی پیش کرنے لگے۔تب ہی عوام نے بھی اِن چینلز کو ایسا ہاتھوں ہاتھ لیا کہ پی ٹی وی کے ہاتھ کچھ نہ بچا۔
کون کون پی ٹی وی دیکھتا ہے…؟؟
یہ جاننے کے لیے کہ اب بھی کون کون پی ٹی وی دیکھتا ہے اور کیوں دیکھتا ہے، ہم نے ایک سروے کا اہتمام کیا، جس میں لگ بھگ400سے زاید افراد سے یہی سوال پوچھا گیا۔ مختلف عُمروں اور علاقے سے تعلق رکھنے والے اِن افراد کا تعلیمی پس منظر بھی ایک دوسرے سے مختلف تھا۔اِن میں طلباء و طالبات، گھریلو خواتین، صحافی، ملازمت پیشہ اور کاروباری افراد شامل تھے۔
یونی ورسٹی سطح کے 83طلباء و طالبات میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا، جو پی ٹی وی دیکھتا ہو۔ البتہ، اُن میں سے کئی ایک نے یہ ضرور بتایا کہ وہ پی ٹی وی سے نشر ہونے والے کرکٹ میچز ضرور دیکھتے ہیں، تاہم اگلے ہی لمحے اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ یہ ہماری مجبوری ہے کہ کوئی اور چینل یہ میچز نہیں دِکھاتا، تو پی ٹی وی سے دیکھنے پڑتے ہیں۔‘‘ اِسی طرح کسی بھی صحافی نے پی ٹی وی کی نشریات دیکھنے کی بات نہیں کی اور دِل چسپ اَمر یہ ہے کہ خود پی ٹی وی کراچی سینٹر سے وابستہ ایک صحافی نے اعتراف کیا کہ اُس کے گھر پی ٹی وی نہیں دیکھا جاتا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس سروے کے دَوران ایسا کوئی ایک شخص بھی سامنے نہیں آیا، جو پی ٹی وی کے ڈرامے، کرنٹ افیئرز کے پروگرام یا خبرنامے میں دل چسپی رکھتا ہو۔ اِس سوال پر کہ قومی ٹی وی کی نشریات کیوں نہیں دیکھی جاتیں؟ بیش تر افراد کا جواب تھا۔’’اب وہ پی ٹی وی کہاں رہا۔ ڈرامے پرائیویٹ چینل لے گئے، اب وہاں صرف’’ ڈرامے‘‘ ہی بچے ہیں۔‘‘
اِس معاملے کے ایک اور رُخ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ 50 برس کی عُمر سے زاید افراد آج بھی پی ٹی وی کے ڈراموں کی تعریف کرتے نظر آئے۔ اِس ضمن میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ وہ ڈرامے حقیقت کے قریب ہوتے تھے، زندگی کی اصل کہانیوں کے گرد گھومتے تھے اور اُن میں اخلاقیات کا خیال رکھا جاتا تھا۔‘‘
’’ری اسٹرکچرنگ کے بغیر پی ٹی وی کی حالت نہیں بدلے گی‘‘، عطا اللہ مری
عطا اللہ مَری پی ٹی وی کوئٹہ اور کراچی مراکز کے جی ایم ہونے کے ساتھ بطور پروڈیوسر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ اِس دوران اُنھوں نے بے شمار اردو، بلوچی اور براہوی زبانوں کے ڈرامے پروڈیوس کیے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ماضی، حال اور مستقبل کے ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ’’ دراصل پی ٹی وی کمرشل اِزم کی زَد میں آکر بہت پیچھے رہ گیا، حالاں کہ یہ’’مدر چینل‘‘ ہے، پھر یہ کہ ایک قومی ادارے کے طور پر اِس سے قومی ثقافت کی ترویج و اشاعت کی جو توقّع کی جاتی ہے، وہ بھی پوری نہیں ہو رہی۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ جیسے باقی سرکاری اداروں کا حال ہے، وہی صُورتِ حال پی ٹی وی کی بھی ہے۔ہمارے دَور میں ڈراموں یا دیگر پروگرامز کی ہفتوں ریہرسل جاری رہتی، جس کے دَوران نہ صرف آرٹسٹ بلکہ دیگر متعلقہ افراد دن رات پی ٹی وی ہی میں پڑے رہتے، اب کام سے وہ محبّت اور خلوص نظر نہیں آتا۔صرف سرکاری نوکری کی جارہی ہے، کام ہو، نہ ہو، اس سے کسی کا کوئی سروکار نہیں۔
پھر ایک مسئلہ سرکاری مُہر کا بھی ہے، جس نے اِس کی ساکھ پر سوالات اُٹھائے ہیں۔ تاہم، نااُمید نہیں ہونا چاہیے، اگر اب بھی پورے ادارے کی ری اسٹرکچرنگ کردی جائے، یونین بازی پر پابندی ہو، نان پروفیشنل افراد کو گھر کی راہ دِکھائی جائے اور جدید آلات فراہم کیے جائیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ پی ٹی وی اپنی ماضی کی شان دار روایات نہ دُہرا سکے۔ یہاں مَیں پی ٹی وی بولان کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا، جسے لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہ دنیا میں براہوی اور بلوچی زبان کا واحد تفریحی چینل ہے، جس کے ناظرین خلیجی ممالک تک پھیلے ہوئے ہیں، مگر عدم توجّہی، فنڈز کی کمی اور جدید آلات سے محرومی کے سبب یہ چراغ بُجھنے کو ہے، وہاں موجود ورکز اِس دئیے کو روشن رکھنے کی اپنے طور پر بہت کوششیں کر رہے ہیں، مگر بہرحال اِسے بچانے کے لیے حکومت ہی کو فوری آگے بڑھنا ہوگا، کیوں کہ بلوچستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔کئی اچھے لکھاری اور فن کار موجود ہیں، جن کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔‘‘
’’میرٹ کی پاس داری ہی پی ٹی وی کو دوبارہ کھڑا کرسکتی ہے‘‘، تاجدار عادل
تاجدار عادل کا ایک تعارف تو شاعر و ادیب کے طور پر ہے،جب کہ اُنھوں نے پی ٹی وی پروڈیوسر کے طور پر بھی خاصی شہرت پائی۔ نیلام گھر، معین اختر شو جیسے مقبولِ عام پروگرامز کے ساتھ بہت سے ادبی پروگرام بھی کیے اور پی ٹی وی نیشنل کے قیام میں بھی ان کا کلیدی کردار رہا۔’’ پی ٹی وی اِن دنوں کہاں کھڑا ہے؟‘‘ اِس سوال پر اُنھوں نے پہلے زوردار قہقہہ بلند کیا، پھر نہایت سنجیدگی سے گویا ہوئے۔
’’ اصل مسئلہ یہ ہوا کہ جب پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز لانچ ہوئے، تو یہ وہ وقت تھا، جب پی ٹی وی کو پالش کرنے والی آخری نسل وہاں سے رخصت ہو رہی تھی یا ہونے والی تھی۔اِن حالات میں پی ٹی وی کو جس پروفیشنل سطح پر جانا چاہیے تھا، وہ اُس طرف نہیں گیا، جس کے سبب نجی چینلز سے پیچھے رہ گیا۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ شاید اِس شکست کی بڑی وجہ یہی ہے۔ ہمیں پی ٹی وی کو یہ کریڈٹ دینا چاہیے کہ اِس کے تیار کردہ افراد نے بڑے بڑے چینلز کھڑے کیے یا پھر وہاں اہم عُہدوں پر کام کرنے والوں نے اِس کے سینئرز سے کام سیکھا۔
جہاں تک حکومتی مداخلت کا سوال ہے، تو اِس کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح کی پابندیاں دیگر چینلز برداشت کر رہے ہیں، پی ٹی وی بھی اِسی طرح کی پابندیوں کی لپیٹ میں رہا ہے، مگر یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ یہ کبھی کسی پراپیگنڈے کا شکار نہیں ہوا۔
اِسے جس قدر آزادی حاصل تھی، اُس کے مطابق عوام تک حقائق پہنچانے کی کوشش کرتا رہا۔ ایک اہم بات یہ کہ پی ٹی وی آج بھی کسی دوسرے چینل کے مقابلے میں عالمی امور سے متعلق زیادہ آگہی فراہم کرتا ہے، جب کہ باقی چینلز مقامی سیاست ہی کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔
پی ٹی وی کے کرنٹ افئیرز کے پروگرامز میں عالمی معاملات پر بہت زیادہ فوکس کیا جاتا ہے، پھر یہ کہ مقامی زبانوں اور تہذیبوں کو بھی اِسی فورم پر زیادہ نمایندگی ملتی ہے۔اِس قومی ادارے کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے یک نکاتی پالیسی بنائی جائے، تو وہ ہے،’’ میرٹ۔‘‘ بدقسمتی سے پی ٹی وی میں میرٹ نظر نہیں آتا۔اور یہی تمام مسائل کی جڑ ہے۔‘‘
’’ پی ٹی وی کو بھی’’ریلوے‘‘ اور’’ جی پی او‘‘ بنا دیا گیا ہے‘‘، جاوید جمال
جاوید جمال سینئر اداکار ہیں۔ 11 زبانوں پر عبور رکھتے ہیں، جب کہ درجنوں ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دِکھانے کے ساتھ اُنھوں نے متعدّد ڈرامے تحریر بھی کیے، جن میں سے کئی ایک نے ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ پی ٹی وی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’اِس وقت نجی پروڈکشن ہاؤسز سے بھاری معاوضے لینے والوں کی اکثریت پی ٹی وی سے آنے والوں کی ہے کہ اِس چینل نے نرسری کا کردار ادا کیا، مگر اب یہاں کوئی بھی کام کا شخص نہیں رہا یا اُسے رہنے نہیں دیا گیا۔
مسئلہ وسائل کا نہیں کہ پی ٹی وی تو ریاستی ادارہ ہے اور اس کے صرف کوئٹہ اسٹیشن کی وسعت تمام نجی پروڈکشنز ہاؤسز سے زیادہ ہی ہوگی، اصل ایشو اہل افراد کی تعینّاتی اور اُنھیں کام کی آزادی دینے کا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتوں نے اِسے بھی ریلوے اور جنرل پوسٹ آفس جیسا ادارہ بنادیا، مَن پسند افراد کی بھرتیاں، سفارشی کلچر اور تعلقات کی بنیاد پر آگے بڑھنے جیسے معاملات نے اِس قومی ادارے کو اِس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب اس کے اثرات کہیں نظر نہیں آتے۔
ماضی جیسے مقام کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ پی ٹی وی سے سیاست کا مکمل خاتمہ کرکے خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں کی جائیں اور نجی اداروں کی طرز پر ترقّی و احتساب کا نظام اپنایا جائے، اس کے ساتھ ایسے افراد کی خدمات حاصل کی جائیں، جو ماضی میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دِکھا چُکے ہیں اور اُنھیں کام کی مکمل آزادی بھی دی جائے، تو پی ٹی وی نہ صرف کھڑا ہوسکتا ہے بلکہ ایک بار پھر قوم کی تفریحی و تعلیمی ضرویات پوری کرسکتا ہے۔‘‘
’’نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر مسائل کے حل کی طرف بڑھ رہے ہیں‘‘، چوہدری فاروق احمد
پی ٹی وی سینٹرل ایمپلائز یونین (سی بی اے) کے سیکریٹری جنرل، چوہدری فاروق احمد نے ادارے اور ملازمین کے مسائل کے ضمن میں بتایا کہ’’ پی ٹی وی نے گزشتہ ساٹھ برسوں میں ترقّی کی بہت سی منازل طے کی ہیں۔ اس کے ساتھ، اپنے ملازمین کے حقوق کا بھی تحفّظ کیا اور اُنھیں خوشیاں دیں۔
پی ٹی وی ہماری نظریاتی سرحدوں کا محافظ اور حکومتِ پاکستان کا چہرہ ہے۔چوں کہ اِس وقت پورا مُلک ہی آزمائش سے گزر رہا ہے، تو دیگر اداروں کی طرح پی ٹی وی کو بھی مالی مشکلات کا سامنا ہے، لیکن نئی انتظامیہ سے اُمید ہے کہ وہ اِن مسائل پر جلد قابو پالے گی۔
جہاں تک ملازمین کا تعلق ہے، تو وہ ہمیشہ ادارے کی بہتری اور ترقّی کے لیے کام کرتے ہیں۔ہمارے کچھ مسائل ہیں، جیسے 2008ء کے بعد جو ملازمین ریگولر ہوئے ہیں، اُنھیں پینشن کا حق نہیں دیا گیا، تو ہماری کوشش ہے کہ نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اِس مسئلے کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کریں، کیوں کہ پینشن ہی تو بڑھاپے کا سہارا ہوتی ہے۔
اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے، تو الحمدللہ، پی ٹی وی کے حالات باقی بہت سے اداروں سے بہتر ہیں۔ وزیرِ اطلاعات و نشریات اور محکمے کی سیکریٹری، جن کے پاس ایم ڈی پی ٹی وی کا اضافی چارج بھی ہے، ادارے اور ملازمین کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہیں۔
تن خواہوں میں اضافے اور پروموشن کے معاملات بھی حل کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ یہ واضح کیا ہے کہ یونین، ادارے کو پہلے نمبر پر رکھتی ہے، پھر ملازمین ہیں، کیوں کہ ادارہ ہے، تو ہم ہیں۔ پوری اُمید ہے کہ نئی انتظامیہ اور یونین مل کر تمام مسائل حل کرلیں گے۔‘‘
’’سنہری دَور کی واپسی کے لیے پُرعزم ہیں‘‘، ایم ڈی پی ٹی وی
اِن دنوں وفاقی سیکریٹری اطلاعات، عنبرین جان کے پاس ایم ڈی پی ٹی وی کا اضافی چارج بھی ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی 60 ویں سال گرہ کے موقعے پر’’ جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے نام اپنے خصوصی پیغام میں اُن کا کہنا ہے کہ’’پاکستان ٹیلی وژن مسابقت کی موجودہ فضا میں مقبولیت کی منازل تیزی سے طے کر رہا ہے۔ ڈرامے کے عُمدہ معیار، کرنٹ افیئرز اور نیوز کا ذمّے دارانہ طرزِ عمل اور اسپورٹس چینل کی اعلیٰ کارکردگی نے ناظرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔
وطنِ عزیز سمیت بیرونِ ممالک بسنے والے ناظرین اِس حقیقت کو برملا تسلیم کر رہے ہیں کہ پی ٹی وی، پاکستان کی نظریاتی سرحدوں اور معاشرتی اقدار کا محافظ ہے۔ حبّ الوطنی کے فروغ اور اسلامی تشخّص کی پاس داری کے لیے اِس فیملی چینل کا کردار ہمیشہ ذمّے دارانہ رہا ہے، خصوصاً ڈراما اِس قومی چینل کی شناخت ہے، جسے بحال کرنے کے لیے اِن ہاؤس پروڈکشن پر کام جاری ہے۔
ہم پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہری دَور کی واپسی کے لیے پُرعزم ہیں اور اس ضمن میں پاکستان ٹیلی ویژن اپنی خُوب صُورت روایات برقرار رکھتے ہوئے اپنے ناظرین کے لیے کئی دِل کش پروگرام پیش کر رہا ہے، جن میں سے زیادہ تر پروگرامز پی ٹی وی کی ہوم پروڈکشن ہیں۔
ہم نے ادارے کی بہتری اور جامع اصلاحات کے لیے بھی کچھ اہم فیصلے کیے ہیں۔ مثلاً کم ریٹنگز کے پروگرام بند کر دئیے ہیں اور پروفیشنل ازم اور تعمیری تنقید کے فروغ کے لیے نئی پالیسی کے تحت نئے پروگرام شروع کیے جا رہے ہیں اور پی ٹی وی کے پروگرامز میں اس نئی پالیسی کا مقصد پیشہ ورانہ رویّوں اور تعمیری تنقید کو فروغ دینا ہے۔‘‘
چند اہم سنگِ میل
٭1969 ء میں بہترین ٹی وی اشتہارات کو انعامات دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔٭12 اکتوبر 1970ء کو پہلی بار ٹی وی لائسنس فیس عائد کی گئی۔٭21 دسمبر 1972ء کو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں پی ٹی وی کی نئی عمارت کا افتتاح کیا اور پاکستان ٹیلی ویژن کو کارپوریشن کا درجہ دیا۔٭پی ٹی وی نے پہلی بار مواصلاتی سیّارے کی مدد سے22 دسمبر 1972ء کو براہِ راست کرکٹ میچ دکھایا، جو ایڈیلیڈ میں پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین کھیلا گیا تھا۔٭1973ء میں تینوں سینٹرز لاہور، راولپنڈی/اسلام آباد اور کراچی کو مواصلاتی رابطے سے جوڑ دیا گیا، بعدازاں پشاور اور کوئٹہ سینٹرز بھی اس نیٹ ورک میں شامل ہوگئے۔٭رنگین نشریات کا آغاز20 دسمبر 1976ء سے ہوا۔٭پی ٹی وی پر پنج وقتہ اذان کا آغاز16 اگست 1977ء سے ہوا۔٭16 جنوری 1988ء کو صبح کی ڈیڑھ گھنٹے کی نشریات کا آغاز ہوا۔٭15 جنوری 1994ء سے پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات سیٹلائٹ کے ذریعے بیرونِ ممالک بھی دیکھی جانے لگیں۔
سب سے پہلے…
٭ پی ٹی وی پر سب سے پہلی تلاوتِ قرآنِ پاک قاری علی حسین صدیقی نے کی٭صدر جنرل ایوب خان پہلے سربراہِ مملکت تھے، جن کی پہلے ہی روز تقریر نشر کی گئی٭طارق عزیز پہلے اناؤنسر تھے اور شام آٹھ بجے کی پہلی اردو خبریں بھی اُنھوں نے ہی پڑھیں، جب کہ کنول نصیر پہلی خاتون اناؤنسر تھیں۔٭اسلم اظہر پہلے مینجنگ ڈائریکٹر مقرّر ہوئے۔٭پی ٹی وی کے پہلے دن ذہنی آزمائش کا پروگرام’’بوجھو تو جانیں‘‘، اشفاق احمد (تلقین شاہ) نے پیش کیا٭موسیقی کا پہلا پروگرام’’لوک موسیقی‘‘ کے نام سے پیش کیا گیا، جس میں طفیل نیازی نے اپنا مشہور گیت’’لائی بے قدراں نال یاری تے ٹُٹ گئی تڑک کر کے‘‘ سُنایا، جب کہ سائیں اختر نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ٭پہلا اشتہار NEC کا چلا٭ بچّوں کا فزیکل ڈسپلے پہلی رنگین نشریات تھیں٭اشفاق احمد کا لکھا ہوا کھیل’’پھول والوں کی سیر‘‘ پہلا رنگین ڈراما تھا٭’’سوہنا دیس‘‘ بچّوں کا پہلا رنگین پروگرام تھا ٭سب سے پہلے ناہید اختر کا رنگین گیت نشر ہوا، جس کے بول تھے۔’’آتی ہے پون، جاتی ہے پون۔‘‘٭پہلا ڈراما’’ نذرانہ‘‘ تھا، جو28 نومبر 1964ء کو نشر ہوا٭پہلا رنگین سیریل’’پرچھائیاں‘‘ نشر ہوا۔