• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گاڑیوں کے پیچھے’’ ہم کوئی غلام ہیں‘‘ اور ’’امریکی مداخلت‘‘ نامنظور ’’لکھوانے والے اب امریکی ارکان کانگریس سے خطوط لکھواتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت کرے۔ شاید اب گاڑیوں کے پیچھے امریکی جھنڈے کیساتھ ’’ امریکہ زندہ باد‘‘ اور ہاں ہم غلام ہیں‘‘ کے نعرے لکھوائے جائیں۔ آخر کب تک پاکستانی عوام بالخصوص نوجوانوں کو بیوقوف بنایا اور سمجھا جائیگا۔ اب تو ان لوگوں کو اپنی سوچ تبدیل کرکے مثبت سوچ اپنانا چاہئے جو ایسے نعرے لکھوانے اور لگوانے والوں کے بہکاوے میں آئے تھے۔ یہ کیسی سیاست ہے کہ اپنے مفادات کیلئے غیروں کو اپنے ملکی معاملات میں مداخلت کرنے کیلئے کوششیں کی جائیں اور اس مقصد کیلئے مبینہ طور پر بھاری رقوم خرچ کی جائیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو آئینی طور پر اقتدار سے محرومی کے بعد امریکہ پر مداخلت کے الزام پر مبنی بیانیہ کی تشہیر کیاکرتے تھے۔ کیا پاکستانی قوم اب ایسے لوگوں کا اعتبار کریگی۔ شاید بالکل نہیں۔ اسی لئے تو اس جماعت کے اب تک تمام احتجاجی جلسے اور جلوس فلاپ ہوچکے ہیں۔ پاکستان کیخلاف چندامریکی اراکین کانگریس کی طرف سے سبکدوش ہونیوالے صدر جو بائیڈن کو پہلے بھی خط لکھا گیاتھا۔ اس خط کو لکھنے والے ارکان کی تعداد 65 تھی اب جو دوسرا خط لکھا گیا ہے یہ 46ارکان کی طرف سے ہے۔ پہلے خط کے کافی دن بعد امریکی حکومت کے ترجمان نےردعمل دیتے ہوئے صرف اتنا کہا تھا کہ اس خط کا جواب مناسب وقت پردیا جائے گا۔ سمجھنے والوں کیلئے اتنا کافی تھا۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کیوں پاکستان پر کسی ایک فرد کیلئے زور دیگا جبکہ مقدمات کی نوعیت بھی سیاسی نہیں ہے اور وہ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ کیا پاکستان کی دفاعی تنصیبات پر حملے اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے اور ان مکروہ کرتوتوں کو دنیا بھر میں کوئی بھی جائز قرار دے سکتا ہے۔ کیا ان واقعات کے منصوبہ ساز اور لوگوں کو ایسا عمل کرنے کیلئے اکسانے والوں کو بے قصور قرار دیاجاسکتا ہے۔ کیا پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک نہیں ہے یا کسی کی کالونی ہے۔ کیا پاکستانی قوم جواب سب حقیقت جان چکی ہے ایسے لوگوں کی حمایت کریگی۔ مذکورہ بالاتمام باتیں بعید از عقل اور ناممکن ہیں۔ جہاں تک پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کی بات ہے تو وہ پامالی کیا ہے یہ بھی تو بتایا جائے۔ کوئی بھی جاکر دیکھے کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ جیل میں کیا زیادتی ہو رہی ہے۔ کیا جو سہولیات انکو حاصل ہیں باقی قیدیوں کو بھی حاصل رہی ہیں؟۔ اگر کسی بیرونی دباؤ کیوجہ سے بانی پی ٹی آئی کو رہائی دی جاتی ہے تو پھر پاکستانی قوانین اور عدلیہ کی توجیح کیا رہ جائے گی۔پھر توتمام قیدیوں کاحق بنتا ہے کہ انہیں رہا کیا جائے۔ دفاعی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں کی اہمیت کیا رہ جائیگی۔ بیرون ملک فرار ہونیوالے اور وہاں مقیم چند گمراہ کن عناصر جنکا تعلق مخصوص جماعت سے ہے مسلسل پاکستان اور ریاستی اداروں کیخلاف ناپاک اور غلیظ پروپیگنڈہ سوشل میڈیا کے ذریعے کرنے میں مصروف ہیں انکو لگام ڈالنے کیلئے ایک منظم کارروائی ازحد ضروری ہے۔ پاکستان میں ان کیخلاف ٹھوس اور ناقابل ضمانت ایف آئی آر درج کرکے مقدمات درج کرائے جائیں۔ جہاں تک پاکستان میں انسانی حقوق کی بات ہے تو یہاں اقلیتوں سمیت سب کو برابر کےحقوق حاصل ہیں۔ ملکی قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمات کا انسانی حقوق سے کیاتعلق ہے۔ ملکی عدالتیں کھلی اور آزاد ہیں۔ کوئی بھی اپنے قانونی اور جائز حق کیلئے عدالت سے رجوع کرسکتا ہے اور لوگ کرتے بھی ہیں۔قانون کے مطابق انصاف دلانا نہ تو حکومت کا اختیار ہے نہ ہی کسی ریاستی ادارے کا۔ یہ اختیار صرف عدلیہ کو حاصل ہے اور عدلیہ سے انصاف کے لئے رجوع کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ البتہ دفاعی معاملات کو دیکھنا اور اس سے متعلقہ معاملات کا اختیار فوجی عدالتوں کو ہونا چاہئے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جس کا دل چاہے دفاعی تنصیبات پر حملہ آور ہو جائے یا ریاستی اداروں کو بدنام اور کمزور کرنے کی کوشش کرے۔ انسانی حقوق کی بات کرنے اور اس کو بنیاد بناکر کسی مخصوص جماعت یا کسی فرد واحد کی حمایت کرنیوالوں کو فلسطین اور لبنان نظر نہیں آتا۔ کیا وہ انسان نہیں ہیں جن کے حقوق اور سرزمین کو غصب کرنے والے صہیونی سر عام ان بے گناہوں کا قتل عام کررہے ہیں اور انسانی حقوق کے علمبردار ان قاتلوں کی ہر طرح سے مدد کررہے ہیں۔ کیا انسانی حقوق کے دعویداروں کو مقبوضہ کشمیر کےمسلمان انسان نہیں لگتے جن کے انسانی حقوق کی بھارت گزشتہ سات دہائیوں سے پامالی کررہا ہے۔کشمیر کی ریاستی خود مختاری کی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے بھارتی غیر آئینی اور غیر انسانی اقدامات کسی کو نظر نہیں آتے۔ اپنے انسانی حقوق اور ریاستی خود مختاری کیلئے آواز بلند کرنیوالوں کو قتل کرنے والے بھارتی درندے کسی کو نظر نہیں آتے۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار یہ بھی معلوم کریں کہ بھارتی جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنیوالے کشمیری رہنماؤں اور کشمیری نوجوانوں کا قصور کیاہے اور یہ عرصہ دراز سے کس جرم کی پاداش میںقید ہیں۔جن میں یاسین ملک و دیگر رہنمائوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے خطوط لکھنے والے اور امریکی لابیز کو بھاری رقوم ادا کرنیوالے پہلے یہ تو بتائیں کہ آخر انکو بانی پی ٹی آئی سے اتنی محبت کیوں ہے اور ان کی رہائی سے انکے کیا مفادات وابستہ ہیں۔ یہ بات حتمی ہے کہ کسی بیرونی دباؤ یا جلسے جلوسوں سے فائدہ نہیں بلکہ نقصان ان ہی کا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ کسی بھی وقت اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے تمام امور پر موقف سامنے آ جائے۔

تازہ ترین