ملک میں چینی کی مصنوعی قلت اور مہنگائی کا معاملہ نیا نہیں، یہ کھیل عشروں سے جاری ہے اور اس مدت میں کوئی بھی حکومت مستقل بنیادوں پر اس مسئلے کو حل نہیں کرسکی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ شوگر مل مالکان میں بااثر اور مقتدر سیاسی و غیرسیاسی طبقوں کے لوگ شامل ہیں۔ ملک میں چینی کے وافر ذخائر موجود ہونے کے باوجود ذخیرہ اندوزی اور سٹہ بازی میں ملوث عناصر مصنوعی قلت پیدا کرکے نرخ بڑھاتے اور بے تحاشا منافع کماتے ہیں۔ پچھلے برسوں میں ان ہی ہتھکنڈوں سے چینی کی قیمت 200 روپے فی کلو سے بھی اوپر لے جائی گئی تھی لیکن موجودہ دور میں قیمتیں نیچے لانے کی کوششوں کے باعث ملک بھر میں کم و بیش 130 روپے فی کلو تک چینی دستیاب ہونے لگی تھی۔ اگرچہ اس سے پہلے فی کلو نرخ 85 اور90 روپے تھا۔تاہم اب ایک بار پھر ذخیرہ اندوزی کے ذریعے سے چینی کے نرخ بڑھانے کی کوششیں سامنے آئی ہیں اگر چہ دوسری جانب مل مالکان حکومت کو وافر فاضل ذخائر کی موجودگی کا یقین دلاکر لاکھوں ٹن مزید چینی بیرون ملک برآمد کرنے کی اجازت حاصل کرنے کیلئے بھی کوشاں ہیں۔وزیر اعظم نے اس صورت حال میں بجا طور پر ٹیکس چوری اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث شوگر ملز مالکان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی ہدایت جاری کی ہے اور واضح کیا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایف بی آر، آئی بی اور ایف آئی اے کو ہدایت کی گئی ہے کہ شوگر سیکٹر میں سیلز ٹیکس کی چوری کے سدباب نیز شوگر کین کرشنگ سیزن کے آغاز کے ساتھ ہی شوگر ملوں اور ڈیلرز سے جی ایس ٹی کی 100فیصد وصولی کو یقینی بنایا جائے نیز کیمروں کے ذریعے شوگر ملوں کے پیداواری عمل اور ذخیرہ اندوزی پر نظر رکھی جائے ۔ عام صارفین کے مفادات کے تحفظ کیلئے ان ہدایات پر کسی رو رعایت کے بغیر عمل درآمد کرایا جانا ہوگا خواہ ان کی زد میں آنے والے کتنے ہی اثر و رسوخ کے حامل کیوں نہ ہوں۔