• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں گزشتہ کئی سال سے جاری اسموگ کا مسئلہ ہر گزرتے سال کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے عام شہریوں کے معمولات زندگی اور صحت کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ پنجاب کے بڑے شہر اور نواحی قصبات میں ہر سال سورج کی روشنی اکتوبر سے فروری تک اسموگ کی زہریلی ہوا کے بادلوں میں چھپ جاتی ہے اور شہریوں کیلئےسانس لینا یا معمولات زندگی جاری رکھنا محال ہو جاتا ہے۔ اس سال لاہور کے علاوہ ملتان، فیصل آباد، بہاولپور اور دیگر شہروں میں بھی ائیر کوالٹی انڈیکس 300 کی خطرناک حد سے بھی کئی گنا اوپر جا چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ائیر کوالٹی انڈیکس 1500 سے 2000 کی حد بھی کراس کر گیا۔ اس کی وجہ سے حکومت کو مختلف شہروں میں گرین لاک ڈائون لگانے کے علاوہ صنعتی و تجارتی سرگرمیوں پر بھی پابندیاں عائد کرنی پڑ رہی ہیں۔

تادم تحریر پنجاب میں اسموگ کی وجہ سے ہیلتھ ایمرجنسی نافذ ہے جبکہ لاہور اور ملتان میں فرنس بیسڈ انڈسٹری اور ہر طرح کی تعمیرات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دھواں چھوڑنے والے اینٹوں کے بھٹوں اور غیر معیاری ایندھن استعمال کرنے والے بوائلرز کو گرایا جا رہا ہے۔ ریسٹورنٹس پر بھی مختلف پابندیاں لگا کر ان کے اوقات کار کو مختصر کر دیا گیا ہے جبکہ شاپنگ مالز مالکان کو ائیر پیوریفائر لگانے اور تاجروں کو دکانیں آٹھ بجے بند کرنے کے احکامات جاری کرکے ان پر سختی سے عملدرآمد کروایا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں اسکولوں کی چھٹیوں میں بھی مزید ایک ہفتے کی توسیع کر دی گئی ہے جبکہ کالج اور یونیورسٹیز کو بھی آن لائن کلاسز کے انعقاد کیلئے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ ان تمام اقدامات کے باوجود اسموگ کی شدت میں کمی نہ آنے کی وجہ سے اب لاہور اور ملتان سمیت دیگر بڑے شہروں میں ہفتہ وار مکمل لاک ڈائون لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے تجارتی سرگرمیاں اور معمولات زندگی ایک مرتبہ پھر اسی نہج پر پہنچ جائیں گے جس کا سامنا ہم کورونا کی وبا کے دوران کر چکے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ میں قائم آلودگی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ’’آئی کیو ائیر‘‘کے مطابق لاہور میں ہوا کا معیار خطرناک حد سے بھی زیادہ آلودہ ہو چکا ہے جس میں بنیادی آلودگی والے PM2.5 ذرات کی سطح عالمی ادارہ صحت کی جانب سے محفوظ قرار دی گئی مقدار سے35.4 گنا زیادہ ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کیلئے پنجاب حکومت گزشتہ سال سے اسموگ ایکشن پلان پر عملدرآمد کر رہی ہے۔ اس کے باوجود لاہور میں گزشتہ ایک سال کے دوران اسموگ کے بحران میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اکتوبر کے وسط سے لاہور مسلسل دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں سرفہرست ہے۔ ائیر کوالٹی کی مانیٹرنگ کرنے والے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بھی لاہور کا ماحول صرف تین دن کیلئے اچھا رہا جبکہ 42دن کیلئے ہوا کا معیار تسلی بخش اور 320دن تک غیر تسلی بخش یا مضر صحت ریکارڈ کیا گیا۔ اس سال بھی یکم جنوری سے 30اکتوبر تک لاہور کی ہوا کے معیار میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی اور صرف چار دن ہوا کا معیار اچھا رہا جبکہ 12دن ائیر کوالٹی انڈیکس تسلی بخش رہا جبکہ باقی دنوں میں ہوا کا معیار نقصان دہ یا انتہائی نقصان دہ ریکارڈ کیا گیا۔

ماہرین ماحولیات کا ماننا ہے کہ فضائی آلودگی میں کمی کیلئے کلین انرجی پر چلنے والی ماس پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں وسعت لانے، روایتی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو الیکٹریکل وہیکلز سے تبدیل کرنے، فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے کی روک تھام اور انڈسٹری سے خارج ہونے والے دھوئیں اور گرین ہائوس گیسز کے اخراج کو روکنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی اپنانے کے ساتھ ساتھ بھارت سے ’’کلائمیٹ ڈپلومیسی‘‘ شروع کئے بغیر اسموگ کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا ناممکن ہے۔ واضح رہے کہ اسموگ میں اضافے کی بنیادی وجہ شہریوں کی طرف سے آمد و رفت کیلئے بڑی تعداد میں ذاتی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کے استعمال کو قرار دیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں نجی شعبے میں مسافروں کو سفر کی سہولت فراہم کرنے والی ویگنوں، بسوں اور آٹو رکشائوں کی فٹنس اور ان میں استعمال ہونے والا غیر معیاری فیول بھی اس بحران کو مزید گھمبیر بنانے کا باعث بن رہا ہے۔

اسی طرح ڈیزل پر چلنے والے ٹرک اور دیگر مال بردار گاڑیاں بھی اس قدر زیادہ دھواں چھوڑتی ہیں کہ عام حالات میں بھی ان کے پیچھے آنے والی ٹریفک میں شہریوں کیلئے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معیاری پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کی عدم موجودگی کے باعث لاہور سمیت پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں موٹرسائیکلوں اور موٹرسائیکل رکشوں کی بہتات بھی نہ صرف فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے بلکہ انکی وجہ سے سڑکوں پر حادثات اور ٹریفک جام کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنےکیلئے الیکٹرک وہیکلز کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایندھن کا معیار بہتر بنانےکیلئے یورو 5 فیول کا استعمال لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔

یہ حقیقت ہے کہ حکومت کے اسموگ ایکشن پلان سے فوری نتائج برآمد ہونے کی توقع نہیں البتہ مسلسل کوششوں سے طویل المدت بنیادوں پر مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت کو لاہور کیلئے لندن اور بیجنگ کیلئے برطانیہ اور چین کی طرز پر ا سموگ کے تدارک کیلئے خصوصی قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں یہ دونوں شہر اسموگ کی وجہ سے شدید مسائل کا سامنا کر چکے ہیں لیکن موثر قانون سازی اور اس پر سختی سے عملدرآمد کی وجہ سے اب یہ شہر اسموگ کے عفریت سے چھٹکارا پا چکے ہیں۔

تازہ ترین