• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ ہوگیا ہے جو کسی بھی وقت شروع ہوسکتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ بلوچستان دہشت گردی سے بری طرح متاثر صوبہ ہے۔ کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ اگرچہ خوارج کیخلاف دفاعی اداروں کی کارروائیاں بھی جاری ہیں ۔ ان کارروائیوں میں کئی خارجی دہشت گردوں کو جہنم واصل اور کئی کو گرفتار کیا گیاہے۔ ان کارروائیوں میں پاک فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود تا حال قیام امن ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ الخوارج دہشت گرد باقاعدہ منصوبے کے تحت بلوچستان کی بربادی کے لئے سر گرم عمل ہیں۔ پنجابیوں اور کے پی کے سے آئے مزدوروں کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے کا مقصد بلوچستان والوں کے کاروبار کو برباد کرنا ہے۔ چائنیز انجینئرز کو نشانہ بنانے کا مقصد سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنا ہے ۔ جو بلوچستان کی ترقی اور وہاں کے لوگوں کی معاشی خوشحالی کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں خوف و دہشت کا ماحول بنانے کا مقصد بلوچستان اور وہاں کے عوام کی بربادی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کے عوام کی حمایت ان خوارج کو حاصل ہے۔ یقیناً نہیں۔ معدنیات اور پھلوں سے مالا مال لیکن سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کیساتھ تجارت کی اہم ترین شاہراہ ہے۔ دوسری بڑی بندرگاہ گوادر بھی بلوچستان میں ہے۔ سی پیک سے اس صوبہ میں ترقی اور خوشحالی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہ بات تو سب پر عیاں ہے کہ دشمن یہ سب کچھ نہیں چاہتا اور خارجیوں کے ذریعے بلوچستان میں بدامنی اور بے یقینی کی صورتحال پیدا کر کے اس صوبے کی ترقی کو روکنا چاہتا ہے۔ لیکن بدقسمتی اور دکھ کی بات یہ ہے کہ بلوچستان ہی کے چند گمراہ عناصر دشمن کے ہاتھ ماچس کی تیلی بن کر اپنے گھر کو جلانے کے درپے ہیں۔ ان گمراہ عناصر نے اپنی اپنی تنظیمیں بنارکھی ہیں جن کے کرتا دھرتا خود عیش و آرام سے رہ رہے ہیں۔ لیکن بلوچستان کے بعض نوجوانوں کو ورغلا کر ساتھ ملاتے اور پھر مارنے اور مرنے کیلئے اپنے ہی صوبے میں فساد اور بدامنی پھیلانے کے لئے انہیں بھیجتے ہیں۔ بلوچستان میں مقیم ان کے حمایتی مختلف ناموں سے تحریکی مہم چلاتے ہیں اور ان نوجوانوں کو گمشدہ ظاہر کر کے پاکستانی انٹیلی جنس اداروں اور پاک فوج کو موردِ الزام ٹھہرا کر بدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ وطیرہ بن چکا کے کہ ایسے ’’گمشدہ‘‘ نوجوانوں کی گمشدگی عسکری ادارے کے ذمہ لگاتے ہیں۔ یہ حکومتی کمزوری ہے کہ یہ سب نام نہاد تحاریک ملک کے اندر اور سرعام چل رہی ہیں۔ وہ اسلام آباد تک میں دھرنے دے کر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر کرتے ہیں۔ بلوچستان میں  شاہراہیں اور کاروبار زبردستی کئی دنوں تک بند کراکے رکھتے ہیں لیکن سامنے رہتے اور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ریاست نے ابھی تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی نہیں کی ہے، جب سہولت کار موجود اور آزاد ہوں تو دہشت گردوں کو روکنا آسان ہونا کیسے ممکن ہے۔؟

اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنا خوارج تنظیموں کے لئے آسان کیوں ہے۔ اس سوال کے جواب کے لئے غیر جانبدرانہ اور حقیقت پسندانہ سوچ کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ کیا ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کے عوام کو برابری کے حقوق ملتے ہیں۔ کیا وہاں کے لوگوں کی معاشی خوشحالی کے لئے سنجیدہ اور ثمر بار اقدامات کئے جاتے ہیں۔ کیا وہاں کے لوگوں کو تعلیمی سہولیات آسانی سے دستیاب ہیں۔ کیا وہاں سڑکوں، بجلی اور گیس کی سہولیات دیگر صوبوں کی طرح دستیاب ہیں۔ کیا وہاں ہر غریب کو صحّت کی آسان اور مفت سہولت میسّر ہے۔ کیا وہاں کے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں بلا امتیاز،میرٹ پر اور آسانی سے ملتی ہیں۔ کیا آج بھی بلوچستان کے گاؤں تو چھوڑیئے بعض شہروں میں بجلی، گیس نایاب اور سڑکیں ناپید نہیں ہیں۔ اس طرح اور کئی سوالات ہیں جن میں مذکورہ بالا جواب موجود لیکن پوشیدہ ہیں۔ کیا یہ فوج ہی کی ذمہ داری ہے کہ امن و امان کے قیام کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرے اور اپنے بجٹ سے ترقیاتی کاموں میں بھی لگی رہے۔ حکومتیں کس مرض کی دوا ہیں۔ اس میں کچھ حصہ ہی مل جائے پھر مزے کریں اور لوٹ مار سے ناجائز دولت میں مزید اضافہ کرتے رہیں باقی بلوچستان کے عوام جانیں، دہشت گرد جانیں اور پاک فوج جانے۔ اب مزید یہ کچھ نہیں چلے گا۔

بلوچستان میں فوجی آپریشن سے پہلے وہاں کے معتبر، اہم اور مخلص سیاسی رہنماؤں کو اعتماد میں لینا زیادہ ضروری اور بہتر ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بلوچستان میں بدامنی کی روک تھام کے لئے وہاں کے محبت وطن سیاسی رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر ساتھ نہیں ملایا جاتا ۔ جب تک گھر کے بڑے ساتھ نہ ہوں تو وہاں امن کے قیام کی کوششیں کیسے کامیاب ہوسکتی ہیں۔ ان کے علاوہ وہاں کے نوجوانوں کو بھی اعتماد میں لےکرساتھ لے کر چلنے سے اور وہاں ترقی و خوشحالی کے لئے فوری اقدامات سے بغیر آپریشن سے اس مرض کا علاج ہوسکتا ہے ۔ جس کانام دہشت گردی کا ناسور ہے۔

تازہ ترین