ماریہ غزل، کراچی
ہم عموماً جب بھی گھر سے باہر نکلتے ہیں، تو اکثر دماغ مختلف مضامین سے متعلق مواد جمع کرنا شروع کردیتا ہے، مگر گھر آنے کے بعد تمام خیالات، الفاظ ذہن سے محو ہوجاتے ہیں کہ ؎ اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں ’’قلم وکتاب‘‘ کے سوا۔ سو، ہم ان دُکھوں کو سُکھ میں بدلنے میں مصروف ہوجاتے ہیں اور اُن میں پیٹ کا دُکھ سب سے بڑھ کر ہے، جو کھانا مانگتا ہے۔
یوں چولھا چوکی میں مصروف ہوتے ہی ہمارے وہ سارے نادر و نایاب خیالات کبھی چولھے پہ رکھی روٹی کے ساتھ جل کر، تو کبھی دیگچی سے اُٹھتی خوش بُو میں بھاپ بن کر تحلیل ہو جاتے ہیں، مگر آج کا خیال بڑا زور آور اور تگڑا تھا اور اِسی لیے اب تک دماغ میں پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔
دراصل ہم سوچ رہے تھے کہ لوگ اپنے شہروں کو اُن کی کسی نہ کسی خاصیت سے منسوب کر کے متعارف کرواتے ہیں۔ کوئی اپنے شہر کا تعارف کرواتے ہوئے بڑے فخر سے کہتا ہے کہ ’’ہمارا شہر مدینتہ الاولیاء ہے‘‘، کوئی اپنے شہر کو ’’داتا کی نگری‘‘ بتاتا ہے، تو کوئی ’’جنّت کا ٹکڑا‘‘ قرار دیتا ہے۔
لیکن اگر ہم سے پوچھا جائے کہ ’’آپ کے شہر کی خصوصیت کیا ہے؟‘‘ تو ہم اپنے شہر کو ’’غازیوں کا شہر‘‘ کہہ کر متعارف کروائیں گے۔ قارئین شاید یہ پڑھ کر حیران ہوں اور خُود سے سوال کریں کہ ’’بھلا شہرِ کراچی کس طور غازیوں کا شہر ہوا؟ کیوں کہ اس حوالے سے تو یہ غالباً اکلوتے راشد منہاس شہید کی جائے پیدایش ہے۔
دوسرے مشہور غازی، ایم ایم عالم کلکتہ کے پیدائشی تھے، تو پھر بھلا یہ شہر غازیوں کا کیسے ہوا؟‘‘ تو بھئی، ہم دراصل شہر کی سڑکوں پر نکلنے والے اُن موٹر سائیکل سواروں کی وجہ سے اِس شہر کو غازیوں کا شہر قرار دے رہے ہیں کہ جو اِن دنوں اپنے گھروں سے بس یہی سوچ کر نکلتے ہیں کہ ’’کام آگئے، تو شہید اور لوٹ آئے تو غازی۔‘‘ اور چوں کہ بہرحال، اِن میں سے صحیح سلامت لوٹ آنے والوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، تو اِس اعتبار سے یہ شہر ’’غازیوں کا شہر‘‘ ہی ٹھہرا۔
شہرِ کراچی میں بے حد و حساب موٹر سائیکلز ہیں۔ ہر گھر میں ایک یا دو اور بعض گھروں میں حضرات کی تعداد کے اعتبار سے تین سے چار موٹر سائیکلز بھی موجود ہیں، کیوں کہ ایک طرف اِس قدر گنجان آباد، ٹریفک کے بے پناہ دباؤ کے شکار شہر کے باسی ہونے کے سبب، تو دوسری طرف منہگائی کے عفریت کے ڈسے ہونے کے باعث بھی بہرکیف سب سے سَستی اور آرام دہ (آسانی سے میسّر ہونے کے سبب) سواری یہی ہے۔ یہاں تک کہ شہرِ کراچی کے باسیوں کا ماننا ہے کہ ’’اِس شہر میں رہنے کے لیے اپنی موٹر سائیکل رکھنا لازمی شرط ہے۔‘‘ حالاں کہ شہر کے ٹریفک کے ازدحام میں اِن موٹر سائیکلز ہی کا بڑا حصّہ ہے۔
پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں مثلاً لاہور، ملتان، فیصل آباد، پشاور، اسلام آباد اور کوئٹہ وغیرہ میں آپ کو کہیں اتنی کثیر تعداد میں موٹر سائیکلز نظر نہیں آئیں گی، جب کہ کراچی کےیہ ’’بائیک رائیڈرز‘‘ تو سَر پہ کفن باندھے اپنے خاندان کے ساتھ گھر کا جملہ سامان بھی اِسی ننّھی سواری پر لاد کرایک سے دوسری جگہ آتے جاتے نظر آتے ہیں۔
سولر پلیٹ سے لے کر صندوق یا ٹرنک سمیت ہر چھوٹے، بڑے سامان کے لیے یہ ’’سواری‘‘ ہی اِن ’’غازیوں‘‘ کو مناسب لگتی ہے۔ بعض رائیڈرز تو اپنے بھاری بھرکم خاندان کے ساتھ کچھ اس شانِ بےنیازی سے موٹر سائیکلز پر سفر کررہے ہوتے ہیں کہ اس بات کا لحاظ کرنا بھی بُھول جاتے ہیں کہ اس ننّھی مُنی جان پراس قدر بار خود اُسے کس قدرگراں گزر رہا ہوگا۔
دو بچّے آگے ٹینکی پر، ایک بچّہ پیچھے بیٹھی خاتونِ خانہ کی گود میں اور پھر اُس کے پیچھے بچّوں کے سامان سے لدا بیگ تو گویا معمول کا نظارہ ہے۔ بعض حضرات تو گائوں سے آئے مہمانوں کو اس پر بٹھا کر دُور دراز علاقوں کی سیر کوبھی نکل جاتے ہیں اور تب منظر قابلِ دِید ہوتا ہے۔ ڈرائیور ٹینکی پر کسی مجسمے کی مانند بیٹھا ہوتا ہے، اُس کے پیچھے ایک مردِ مجاہد اور اُس کے بعد دو خواتین۔
اسی طرح بعض مَن چلے، شوخ مزاج لڑکے سیر و تفریح کے لیے بھی اِسی ’’معصوم سواری‘‘ کو استعمال میں لاتے ہیں اور اپنے پانچ پانچ دوستوں کے ساتھ سفر کرنے کی کوشش میں بعض اوقات سڑک کے بیچوں بیچ تسبیح کے ٹوٹے دانوں کی مانند بکھرے پڑے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
نیز، اکثر و بیش تر موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی خواتین اپنا توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنے پائوں ہوا میں لہراتے ہوئے اور اپنے دوپٹے، چادریا بُرقعے سے بے نیاز ہو کر، جو پاؤں کی مخالف سمت لہرا رہا ہوتا ہے، ’’مَیں اُڈی اُڈی جاواں، ہوا دے نال…‘‘ کی عملی تفسیر بنی بھی نظر آتی ہیں۔
اور…ان تمام تر نظاروں میں سب سے مظلوم بہرحال موٹر سائیکل چلانے والا فرد ہی ہوتا ہے، جو کاٹھ کے مجسمے کی طرح سواری پر اس طرح اِستادہ ہوتا کہ ہِل تک نہیں سکتا اور نہ ہی اپنی دائیں یا بائیں جانب دیکھ سکتا ہے۔ ہاں، ایسے کڑے وقت میں سڑک پر موجود دوسرے موٹر سائیکل سوار اس کے ساتھ بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ضرورنظر آتے ہیں۔
وہ نہ صرف اُسے رش میں رستہ فراہم کرتے ہیں بلکہ کبھی کبھی بآوازِ بلند گفتگو کرکے اُس کا دل بھی بہلاتے ہیں۔ تاہم، یہ ’’بھائی چارا‘‘ اُس وقت عروج پر پہنچ جاتا ہے کہ جب کوئی خاتون ڈرائیور گاڑی ڈرائیو کرتی دکھائی دیتی ہے کہ یہ اُسے مشترکہ طور پر ہراساں کرنا اپنا فرضِ عین تصوّرکرتے ہیں اور نتیجتاً روزمرّہ حادثات میں اپنا بڑا حصّہ ڈالنا ( رُک کر تماشا دیکھنے سمیت) بھی نہیں بُھولتے۔
اس کے علاوہ یہ ’’غازی‘‘ سڑکوں کو رَش یا ٹریفک جام کی صُورت مزید جام کرنے میں بھی ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ نیز، عیدین، یومِ آزادی یا دیگر خوشی کے مواقع پر یہ عام افراد کے میلوں ٹھیلوں میں شریک نہ ہونے کا دُکھ بھی اپنے دل میں محسوس کرتے ہوئے باقاعدہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر، سڑکوں پہ ون وِیلنگ کے فن کا مظاہرہ کر کے اُن کا خُوب دل بہلاتے ہیں جب کہ بعض اوقات اِسی ’’میدانِ جنگ‘‘ میں جاں بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئےکسی ہول ناک حادثے کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔
تاہم، عموماً اِن حادثات میں جان کی بازی کم، ٹانگ کی چوٹ زیادہ کھاتے ہیں اور پھر’’غازی‘‘ بن کر کئی دن تک گھر والوں کو اپنی خدمت کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ تو بھئی، اسی لیے تو ہم کراچی کے موٹر سائیکل سواروں کو ’’غازی‘‘ اور شہرِ کراچی کو ’’غازیوں کا شہر‘‘ قرار دیتے ہیں۔