انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ انسان اور کتاب کا ہمیشہ سے دیرینہ تعلق رہا ہے۔ مختلف ادوار میں علوم وفنون کے پھیلاؤ اور ان کی نسل در نسل منتقلی کا واحد اور اہم ذریعہ کتاب ہی رہی ہے۔ گرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ہر شعبۂ زندگی میں ترقّی ہوتی رہی، نِت نئی سائنسی ایجادات منظرِ عام پر آتی رہیں، مگر ان تمام تر تغیّرات کے باوجود آج تک کتاب کا نہ کوئی نعم البدل سامنے آسکا اور نہ ہی کتاب کی ضرورت واہمیت میں کمی آئی۔
اِسی طرح کتاب کی اثرپذیری بھی اپنے تمام ترخواص کے ساتھ بہ درجۂ اتم موجود ہے۔ ہماری مجموعی سماجی زندگی میں ابتدائے آفرینش سےآج تک جس قدربہتری رُونما ہوئی ہے اور معاشرے نے جتنی جدید شکل اختیار کی ہے، سب کتاب ہی کےمرہونِ منّت ہے۔
کسی بھی قوم کی مجموعی پیش رفت اور اُس کے افراد کے افکار و مشاہدات کا اندازہ لگانے کے لیے اُن کی علمی تصانیف پیمانے کا درجہ رکھتی ہیں۔ نیز، یہ تصانیف مختلف ممالک کے شہریوں کی ایک دوسرے سے قُربت اور باہمی شناخت کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ اقوام کے درمیان مختلف موضوعات پر تصانیف کا تبادلہ اور مطالعہ ذہین و باصلاحیت افراد کی ایک دوسرے سے ہم آہنگی اور باہمی تعاون کا بھی اہم ذریعہ بنتا ہے۔
تاریخ کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا کہ زمانۂ قدیم ہی سے سماجی اور سائنسی علوم و فنون سے متعلق تجربات ومشاہدات اورنظری وعملی نقطۂ نظر کو کُتب کی شکل میں پیش کرنے کا عمل جاری ہے اور یہ علمی تصانیف ہرآنے والے دَور میں ’’تازہ ترین‘‘ کی شکل اختیار کرجاتی ہیں اور اِن ہی کی بہ دولت آج دُنیا تیزی سے ترقّی کی منازل طے کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ کتاب ہر دَور ہی میں انسان کو اُس زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتی چلی آئی ہے۔
کتاب میں تسخیری قوّت پنہاں ہے اور یہ موضوع کے لحاظ سے قاری کے ذہن میں نِت نئے تصوّرات پیدا کرنے کے ساتھ کسی بھی ایسے منصوبے سےمتعلق غوروفکر کی بنیاد بنتی ہے کہ جسے حقیقت کا رُوپ دیا جاسکے۔ دوسری جانب کسی بھی موضوع پرتحقیق بھی کتاب ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
گرچہ انٹرنیٹ پر لاتعداد ای بُکس موجود ہیں، لیکن اسکرین پرعموماً ایک وقت میں صرف ایک ہی کتاب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں کتاب چُوں کہ ٹھوس وجود کی حامل ہوتی ہے، لہٰذا محققین اپنےموضوع کی مناسبت سے ایک ہی وقت میں حسبِ ضرورت ایک سے زاید کتُب سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
ہر دَور میں تحقیق کا سرچشمہ کُتب ہی رہی ہیں اور پھر ہرتحقیق کے نتیجے میں نئی کُتب منظرِ عام پرآتی ہیں، جونِت نئےمشاہدات، تجربات اور تصوّرات کا سبب بنتی ہیں۔ اس سےثابت ہوتا ہےکہ کتاب کی حکمت و افادیت کا دائرہ خاصی وسعت اور گہرائی کا حامل ہے۔ اسی طرح دُنیا بَھر میں تعلیم و تعلیم کا مؤثر ذریعہ بھی کتاب ہی ہے۔ نصابِ تعلیم کو محفوظ کر کےاسے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے کا کام کتاب ہی کے ذریعے انجام پاتا ہے۔
نیز، کتاب ہمیں زندگی گزارنے کے بہت سے اصول و ضوابط بھی بتاتی اور سکھاتی ہے، جب کہ یہ علم وآگہی کے حصول کا سَستا اور آسان ذریعہ بھی ہے۔ واضح رہے کہ اگر ہمیں دُنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچلنا ہے، تو اس مقصد کے لیے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق جدید ترین تعلیم حاصل کرنی ہوگی اور پھر اِس کے لیے مختلف موضوعات پرلکھی گئی علمی وتحقیقی تصانیف سے بھرپور استفادہ بھی کرنا ہوگا۔
یوں توہر فرد میں قدرتی طور پرکوئی نہ کوئی صلاحیت و مہارت ضرور موجود ہوتی ہے، لیکن کُتب ہی کے ذریعے اُن پوشیدہ صلاحیتوں کو سامنے لایا جا سکتا ہے، جب کہ مطالعۂ کُتب نہ صرف ہماری صلاحیتوں کو جِلا بخشتا ہے بلکہ کسی فرد کو علمی وعملی دونوں سطح پر متحرّک اور کارآمد بنانے میں اہم کردار بھی ادا کرتا ہے۔ اعلیٰ اقسام کی تصانیف کا مطالعہ قاری کی حسِ ادراک کو تیز اور مشاہدے کو وسیع کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کا شعور وفہم پُختہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ مختلف امور کی تہہ تک پہنچ کر مطلوبہ نتائج اخذ کرپاتا ہے۔
کُتب کا مطالعہ انسان کی شعوری کوشش کا بنیادی محرّک ہے۔ مطالعے کے آغاز سے لے کر تحقیق کے عمل اور معیار کو عمیق بنانے اور پھر اس سے ٹھوس نوعیت کے نتائج کے حصول تک کا مرحلہ وار عملی طریقہ ’’کتاب کی میکانیت‘‘ کہلاتا ہے۔
کتاب کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر یہ تحفے اور انعام کے طور پر بھی پیش کی جاتی ہے۔ پھر مطالعے کی عادت ذخیرۂ الفاظ میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو افراد مختلف موضوعات پر مشتمل کُتب کا مطالعہ کرتے ہیں، اُن میں کسی بھی موضوع پر معیاری بحث اور تبصرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
نیز، کُتب بینی سے فرصت کے لمحات کو بہت تعمیری اور قیمتی بھی بنایا جاسکتا ہے کہ یہ عمل کُند ذہنوں کو کندن کر دیتا ہے۔ کتاب پڑھنے سے ذہن ترو تازہ ہوجاتا ہے، جب کہ مطالعہ لکھنے کا رجحان ہی پیدا نہیں کرتا، اُسے فروغ بھی دیتا ہے اور یوں صحت مند سرگرمیوں کے لیے باقاعدہ فضا جنم لیتی ہے۔
ایک کتاب ہی انسانی سوچ و فکر کو دُرست سمت کی جانب گام زن کرتی ہے اور کُتب بینی کاوسیع دائرہ معاشرے میں مثبت اقدار کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔ اس سے سماجی خرابیوں اور برائیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ پھر کتابیں انسانی نفسیات پر بھی خوش گوار اثرات مرتّب کرتی ہیں۔ کتب کے مطالعے سے ذہن کشادہ ہوتا ہے، فرد کو زندگی گزارنے کا سلیقہ آتا ہے، تو سوچ اور فکری رجحانات تعمیری بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں۔
جب معاشرے کےافراد ایک دوسرے کو مختلف علمی تصانیف کا مطالعہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو وہ اِس عمل سے متاثر ہو کر خود بھی مطالعہ شروع کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرے میں مطالعے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ یوں بھی کتابیں فرد میں اچّھے، بُرے کے مابین منطقی بنیاد پر تمیز کرنا سکھاتی ہیں اور زندگی کو بھی ایک نظم و ضبط میں لاتی ہیں۔ واضح رہے، کُتب کے ظاہری خدوخال یا بناوٹ بھی خاصی کشش رکھتی ہے اوراسی سبب دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ کُتب کو دیکھ کر اشتیاق سے ان کی طرف متوجّہ ہوتے ہیں۔
سچ تو یہ ہےکہ علم کوطاقت کہا گیا ہےاور یہ علم کتابوں ہی میں موجود ہے۔ ماضی میں ایسی اَن گنت شخصیات سامنے آئی ہیں کہ جنہوں نے اپنے علم ہی کی بنیاد پر دور رس اثرات و نتائج کے حامل معر کے سر انجام دیئے یا انقلاب لانے کا ذریعہ بنیں۔ اِن میں قائداعظم محمّد علی جناح، سرسیّد احمد خان، علاّمہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد سمیت متعدّد شخصیات شامل ہیں کہ جنہوں نےاپنے کارہائے نمایاں کی بدولت بلندترین مقام حاصل کیا اور تاریخ ساز شخصیات کہلائے۔