میلان کنڈیرا کا ناول ’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘ ہماری نسل کا نمائندہ ادبی استعارہ ٹھہرا۔ ہماری نسل نے ساٹھ کی دہائی کے خواب آگیں برسوں میں آنکھ کھولی۔ جوانی میں سرد جنگ کے خاتمے اور عالمی جمہوری ابھار سے جذبوں کو مہمیز کیا۔ مذہبی دہشتگردی کا جنم دیکھا اور اب بڑھاپے میں جمہوریت دشمن اور مقبولیت پسند سیاست کا بڑھتا ہوا اندھیرا دیکھ رہے ہیں۔ ناول کا خلاصہ بیان کرنا ممکن نہیں۔ ایک منظر یاد دلانا مقصود ہے۔ مصور سبینا اپنی طالب علمانہ مشق کے کچھ نمونے تیریزا کو دکھا رہی ہے۔ اشتراکی حقیقت پسندی کے چوبی منظر جن میں تخیل کو ریاستی ہدایت نامے سے انحراف کی اجازت نہیں تھی۔ ایک عمارت کی تصویر پر اتفاقاً سرخ رنگ کا ایک قطرہ گر گیا تھا جو ایک عمودی لکیر کی صورت یوں بہتا ہوا نیچے تک آیا گویا سنگی دیواروں میں دراڑ کی صورت بیرونی آرائش کے پار چھپی بدصورتی کا پردہ چاک کر رہا ہو۔ کنڈیرا نے یہاں ایک مزے کی ترکیب استعمال کی، ’سطح پر ایک قابل فہم جھوٹ اور اسکے پیچھے چھپی ناقابل فہم سچائی‘۔ گزشتہ ہفتے پوری قوم یعنی ریاست، سیاسی قیادت اور عوام 24نومبر کو تحریک انصاف کی ممکنہ ہنگامہ آرائی سے الجھی رہی، اسلامی نظریاتی کونسل کے وی پی این سے متعلقہ مبینہ فتوے میں ’کمپوزنگ کی غلطی‘ کا غلغلہ رہا۔ محترمہ بشریٰ بی بی کی باپردہ رونمائی نے الگ خاک اڑائی۔ سوشل میڈیا کے خود ساختہ کھوجی علی امین گنڈاپور اور محسن نقوی کی نقل و حرکت کا سراغ لگاتے رہے۔ سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ جاری رہی۔ نصف صدی پہلے ہمیں نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا سندیسہ سنایا گیا تھا، اب ڈیجیٹل سیکورٹی کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ اس دوران دہشت گردی کے متعدد خوفناک واقعات سیاسی خبروں میں گم ہو گئے۔ نو نومبر کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خودکش حملے میں30 ہم وطن جان سے گئے۔ 19 نومبر کو بنوں چیک پوسٹ پر حملے میں 12فوجی جوان شہید ہوئے۔21نومبر کو کرم زیریں میں دہشت گرد ایک گھنٹے تک مسافر گاڑیوں پر آگ برساتے رہے۔ عورتوں اور بچوں سمیت مرنے والوں کی تعداد 48 سے متجاوز رہی۔ رواں برس اکتوبر تک 951پاکستانی شہری دہشتگردی کی نذر ہو چکے تھے۔ نومبر زیادہ ستم گر ثابت ہوا۔ وزیر اعظم یا متعلقہ صوبائی وزرائے اعلیٰ کو موقع پر پہنچ کر شہریوں کی ڈھارس بندھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ وزیر داخلہ سے شکوہ بے معنی ہے کیونکہ پنجاب کی نگران وزارت اعلیٰ سے چھلانگ لگا کر وفاقی وزیر داخلہ بننے والے محسن نقوی ’خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گل کوزہ‘ ہیں۔ ہمارا حافظہ موقع محل کی مناسبت سے تاریکی اوڑھ لیتا ہے۔ پچاس برس ہم نے کشمیر کے نام پر قوم کو معاشی ترقی کی بجائے عسکری مورچے میں بٹھائے رکھا۔ 5اگست 2019ء تو اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی بساط 6 جنوری 2004ءکو اسلام آباد میں مشرف اور واجپائی نے لپیٹ دی تھی۔ ستر کی دہائی میں ہم افغانستان میں دخیل ہوئے تھے۔ سرد جنگ کے اس اختتامی مرحلے میں ہمارا حصہ اتنا ہی تھا جتنا امریکا اور چین کے روابط کی بحالی میں یحییٰ خان کو ملا تھا۔ یحییٰ خان نامی ہرکارہ جغرافیے سے ہار گیا لیکن ضیا الحق نامی پیادہ جنیوا معاہدے تک کوس لمن الملکی بجاتا رہا۔ بعد ازاں ریاست نے مذہبی انتہا پسندی اور بے چہرہ جنگ کو داخلی سیاست اور معاشی اجارے کیلئے مفید مطلب پا کر اپنائے رکھا۔ 1998ءسے ستمبر 2001ءتک پاکستان کو امریکا سے کل نو ملین ڈالر امداد ملی جو نائن الیون کے بعد تین برس میں 4.2 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ ڈالروں کی اس بارش کے تسلسل کیلئے افغان طالبان کو زندہ رکھنا ضروری سمجھا گیا بھلے اس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی طالبان کیوں نہ قدم جما لیں۔ 2011آتے آتے نائن الیون تاریخ کا حصہ بن چکا تھا، مئی 2011 میں ایبٹ آباد آپریشن کے بعد معاملات اس قدر بدل گئے کہ مائیک مولن امریکی کانگریس کے سامنے پاکستان پر انگلی اٹھا رہا تھا۔ امریکیوں نے افغانستان سے نکلتے ہوئے پاکستان میں بارودی سرنگ بچھا دی ہے۔ ہماری الجھن یہ ہے کہ 20برس تک افغان طالبان کی درپردہ پشت پناہی کا اعتراف نہیں کر سکتے۔ پروجیکٹ عمران اور طالبان میں زیر زمین تعلق بیان نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں دہشت گرد گروہوں اور مجرمانہ معاشی گٹھ جوڑ سے آنکھ نہیں ملا سکتے۔ خطے میں طاقتور عالمی قوتوں کی چیرہ دستیوں پر زبان نہیں کھول سکتے۔ پاکستان میں طالبان کی دہشت گردی سے 2018تک کم از کم 65000 پاکستانی شہری جاں بحق ہوئے اور ملکی معیشت کو 127ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ 2016ءسے 2020 ءتک دہشت گرد حملوں میں واضح کمی آ چلی تھی لیکن پھر اگست 2021ءکے بعد سات ہزار سے زائد پاکستانی طالبان واپس پاکستان لائے گئے اور 100 کے قریب دہشت گرد پاکستانی جیلوں سے رہا کئے گئے۔ یوں دہشت گردی کا عفریت واپس لوٹ آیا۔ سوال یہ ہے کہ ہزاروں پاکستانی فوجی جوانوں کی جانیں دے کر حاصل کیا گیا امن کس نے برباد کیا۔ کیا طالبان کی واپسی کا فیصلہ کابینہ یا پارلیمنٹ کے سامنے رکھا گیا؟ قیاس یہی ہے کہ یہ فیصلہ عمران خان اور فیض حمید نے ازخود کیا اور یہ اقدام نو مئی سے بھی بڑا جرم ہے۔ کابل ہوٹل کی چائے کی یہ لذت اب پاکستان کیلئے تلخ کامی میں بدل چکی ہے۔ اور اس پر ہمارا ردعمل کیا ہے۔ اب ہم سیاسی کارکنوں پر دہشت گردی کے مقدمات بنا رہے ہیں اور طالبان کو خوارج کہتے ہیں۔ آپ تو خیر خوب سمجھتے ہیں لیکن شاید ’بابا لوگ‘ کو معلوم نہ ہو۔ قدیم جنگجو جس تھیلے میں خشک راشن لیکر جنگ و جدل پر نکلتے تھے اسے خورجی کہا جاتا تھا۔ خوارج مسلم تاریخ کا ایک معروف باب ہے۔ طالبان دہشت گردوں کو خوارج کا نام دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی سابق ’صادق و امین‘ کو فتنہ یا بانی کہہ کر یقین کر لیا جائے کہ قوم کو نیا بیانیہ بخش دیا گیا ہے۔ صاحب، ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ خوارج کس خورجی کا اثاثہ ہیں نیز یہ کہ ماضی کے ’چیئرمین‘ اور ’قائد‘ کو بانی کہہ کے پکارنا کس گرو کی بانی ہے۔