اسلام آباد پر دھاوا بولنے کیلئے تحریک انصاف کی مارو یا مرجائو احتجاجی کال کو اگرچہ ملک گیر سطح پر زیادہ پذیرائی نہ مل سکی تاہم خیبرپختونخوا سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں اتوار کو نکلنے والا بڑا قافلہ پیر کو اسلام آباد کے دروازے پر پہنچ گیا جہاں وفاقی حکومت کے سخت حفاظتی اقدامات کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار اسے روکنے کیلئے مستعد کھڑے تھے۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں ،جن میں دونوں طرف کے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔مظاہرین نے پولیس پر پتھرائو کیا ،اس کی گاڑیوں کو آگ لگائی اور فائرنگ بھی کی جس کے جواب میں پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی ۔آخری اطلاعات کے مطابق دفعہ144کی خلاف ورزی اور تشدد آمیز سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر 1000سے زائد افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔لوگوں کو تشدد اور غیرقانونی اقدامات پر اکسانے کے الزام میں بانی پی ٹی آئی، علی امین گنڈا پور ،سابق صدر عارف علوی،بشریٰ بی بی اور دوسرے لیڈروں کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔اسلام آباد میں سی آئی اے بلڈنگ کو گرفتار شدگان کیلئے سب جیل قرار دے دیا گیا ہے۔پولیس پر پتھرائو کرنے والوں میں اکثریت افغانیوں کی ہے۔آئی جی اسلام آباد کے مطابق قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔احتجاجی تحریک چلانے کیلئے پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ حکومت اس کی بات نہیں سن رہی۔وہ حالات معمول پر لانے کیلئے اپنی سخت شرائط پیش کررہی ہے۔جس میں بانی اور دوسرے لیڈروں اور کارکنوں کی رہائی سب سے بڑا مطالبہ ہے۔حکومت اس معاملے میں لچک دکھانے کو تیار نہیںلیکن اس صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کو ہورہا ہے جو سڑکوں کی بندش اور دوسری پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔سب سے زیادہ نقصان ملکی معیشت کو پہنچ رہا ہےجو بحالی کے مرحلے میں ہے۔وزیرخزانہ محمداورنگ زیب کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج سے زرعی اور صنعتی شعبوں سمیت ملک کو 190ارب روپے یومیہ کا نقصان ہورہا ہے۔خاص طور پر دیہاڑی دار مزدور سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ان کا روزگار بند ہونے سے غربت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔مہنگائی بڑھ رہی ہے،سیکورٹی کے مسائل الگ ہیں۔خود ملک کی ساکھ بھی خراب ہورہی ہے۔حکومت اور سیاسی پارٹیوں کو احتجاجی سرگرمیوں وغیرہ کا ادراک ہونا چاہئے۔اپوزیشن کے مطالبات اپنی جگہ اور حکومت کے خدشات بھی درست ہیںلیکن اس صورتحال کےملک پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں ،ان پر بھی سب کو توجہ دینی چاہئےاور مل بیٹھ کر کوئی ایسا طریقہ وضع کرنا چاہئےجس سے احتجاجی تحریکوں،ہڑتالوں،دھرنوں اور لانگ مارچوں کے عوام اور ملکی معیشت کو ہونے والے نقصانات سے بچایا جاسکے۔مہذب ملکوں میں ان مقاصد کیلئے مقامات مخصوص کیے گئے ہیں ،جہاں احتجاج ریکارڈ کرائے جاتے ہیں ۔اس سے زندگی کے معمولات متاثر نہیں ہوتےاور عام لوگ اپنی روزمرہ سرگرمیاں کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھتے ہیں۔کوشش کی جانی چاہئے کہ پہلے تو احتجاجی سرگرمیوں کی نوبت ہی نہ آئے،لیکن ناگزیر ہوتو اس کیلئے کوئی قابل عمل طریقہ وضع کیا جائے جس سے ملک میں انتشار اور افراتفری نہ پیدا ہو۔شہری زندگی کو درہم برہم نہ کیا جائےتاکہ سیکورٹی کے اداروں کو متحرک نہ کرنا پڑے ،جس کے اخراجات سرکاری خزانے پر بہت بڑا بوجھ بن جاتے ہیں۔پی ٹی آئی ،حکومت کے خلاف مسلسل سرگرم ہے اور کئی مرتبہ جلوس لے کر اسلام آ باد گئی ہے اوردھرنے بھی دیے ہیں اسے احتجاج کو ہی آخری حل نہیں سمجھنا چاہئے۔