• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوکرین، مشرقِ وسطیٰ جنگیں 24 گھنٹوں میں بند ہوجائیں گی؟

جی ہاں، دنیا بھر کے لیے اب ایک ہی سوال باعثِ دل چسپی ہے اور دنیا منتظر ہے کہ کیسے صرف 24گھنٹوں میں دو اتنی خطرناک جنگیں ختم ہو جائیں گی۔دراصل، یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ میں خون ریزی بند کروانے کا وعدہ امریکا کے نو منتخب صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کے دَوران کیا اور دعویٰ کیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے، تو چوبیس گھنٹوں کے اندر یہ دونوں جنگیں بند کروا دیں گے، بلکہ اُنہوں نے یہ تک کہا کہ اگر وہ صدر ہوتے، تو یہ فوجی تصادم ہوتے ہی نہیں۔

یاد رہے، وہ اگلے برس20 جنوری کو باقاعدہ اقتدار سنبھالیں گے۔ یوکرین جنگ میں اب تک ساٹھ ہزار افراد ہلاک ہوچُکے ہیں اور یہ ہلاکتیں دونوں اطراف سے ہوئی ہیں۔ اِسی طرح غزہ اور لبنان میں اب تک پچاس ہزار افراد اسرائیلی حملوں میں شہید ہوچُکے ہیں، جب کہ زخمیوں اور بے گھر ہونے والوں کا تو کوئی حساب کتاب ہی نہیں۔ 

یوکرین کے کئی شہر کھنڈر بن چُکے ، جب کہ غزہ بھی تباہی کی بھیانک تصویر پیش کر رہا ہے، فرق صرف اِتنا ہے کہ ایک جنگ میں روس اور یوکرینی فوجی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، جب کہ مشرقِ وسطیٰ میں صرف اسرائیل جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ 

یوکرین جنگ کو اگلے سال24 فروری کو تین سال مکمل ہوجائیں گے، جب کہ غزہ جنگ کو بھی ایک سال سے زاید عرصہ ہوچُکا ہے۔ ان جنگوں سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ فی الحال کسی عالمی جنگ کا امکان نہیں، کیوں کہ بڑی طاقتیں براہِ راست ٹکرائو کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ ان کے عوام اور حکومتوں کو اپنی خوش حال زندگی زیادہ پیاری ہے۔ 

یوکرین کی جنگ میں صُورتِ حال مختلف ہے اور یہاں یورپ کے ساتھ امریکا بھی اُس کا ساتھ دے رہا ہے، لیکن اس کا پیمانہ بہت نپاتُلا ہے۔ روس نے اپنے مخالف کی مدد کرنے والے کسی یورپی مُلک پر حملہ نہیں کیا، یعنی وہ علاقے کی ترقّی کو نقصان پہنچانے سے گریز کر رہا ہے۔

صدر جوبائیڈن نے اپنے عُہدے کے اختتام سے دو ماہ قبل ایک ایسا فیصلہ کیا ہے، جس نے یوکرین جنگ کی شدّت اور حدّت میں اضافہ کردیا۔ اُنہوں نے یوکرین میں نصب امریکی دُورمار بیلسٹک میزائل روس پر داغنے کے ساتھ، خصوصی بارودی سرنگیں بھی استعمال کرنے کی اجازت دے دی اور یہ سطور تحریر کرتے وقت یوکرین انہیں روس کے شہروں پر حملے کے لیے استعمال بھی کرچُکا۔ 

روس کی طرف سے سخت ردّ ِعمل آیا، جس میں کہا گیا کہ’’ اگر یوکرین کی جانب سے یہ میزائل داغے جاتے ہیں، تو اسے یوکرین نہیں، امریکا کا حملہ تصوّر کیا جائے گا۔‘‘لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کیا ردّ ِعمل دے گا۔بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ’’سبک دُوش ہونے والی بائیڈن انتظامیہ جَلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔‘‘بعدازاں، صدر پیوٹن نے اُن ممالک کے خلاف نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دے دی، جو روس کی سالمیت کے خلاف خطرہ ہوسکتے ہیں۔

ابھی تک نومنتخب صدر ٹرمپ کا اس معاملے پر کوئی بیان نہیں آیا، تاہم اُن کے قریبی حلقوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیاہے۔یاد رہے، بائیڈن اور ٹرمپ میں اقتدار کی منتقلی کے سلسلے میں ملاقات ہوچُکی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ جاری تنازعات پر، جن کے اثرات براہِ راست امریکا پر مرتّب ہوتے ہوں، کوئی بات نہ ہوئی ہو۔امریکا نے جن میزائلوں کو روس کے اندر تک داغنے کی اجازت دی ہے، وہ اے ٹی اے سی ایم ایس کہلاتے ہیں اور ان کی رینج300 کلومیٹر ہے۔

گویا ان سے فوجی اڈّوں، بنیادی ڈھانچے اور گولا بارود ذخیرہ کرنے والے مراکز سمیت اہم روسی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ان میزائلوں کی خاص بات یہ ہے کہ تیزرفتاری کی وجہ سے انہیں تباہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔یہ موبائل آرٹلری سسٹم کے تحت استعمال ہوتے ہیں اور امریکی سپورٹ پیکیج کے طور پر یوکرین کو ملے ہیں۔ اِس سے قبل اُس نے یہ میزائل کریمیا کی جنگ میں بھی استعمال کیے، مگر کریمیا پر روس نے قبضہ کرلیا۔یہ ہتھیار یوکرین کو ایک ایسے وقت میں فائدہ پہنچا سکتے ہیں، جب روس اُس کے شمالی شہروں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

یہ میزائل پہلی مرتبہ1991ء میں خلیجی جنگ میں استعمال ہوئے تھے۔ ایسے ہی میزائل برطانیہ اور فرانس نے بھی یوکرین کو دیئے ہیں، تاہم اُن کے ذریعے روسی علاقوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں، اب اگر امریکا نے یہ اجازت دے دی ہے، تو برطانیہ اور فرانس بھی ایسا ہی کریں گے، کیوں کہ یورپی ہونے کی وجہ سے اُن کا جنگ میں زیادہ حصّہ ہے۔

یوکرین جنگ کا ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک نے الزام لگایا ہے کہ شمالی کوریا کے ہزاروں سپاہی روس کی طرف سے جنگ میں شامل ہوگئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ان کی تعداد ایک لاکھ تک جاسکتی ہے۔ پیوٹن نے ٹرمپ کی جیت پر بیان دیا تھا کہ وہ ٹرمپ سے ہر قسم کی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ لگتا ہے، پیوٹن بھی ٹرمپ سے کچھ زیادہ ہی توقّعات وابستہ کر رہے ہیں۔یہ تو ممکن نہیں کہ ٹرمپ فوراً ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ روس کی شرائط مان لیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ پہلے جنگ بندی پر جایا جائے اور پھر اُلجھے معاملات سلجھائے جائیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں صُورتِ حال بدل رہی ہے، لیکن ایک چیز جو مستقل ہے، وہ اسرائیلی جارحیت ہے۔یہ ایک یک طرفہ معاملہ ہے اور فوجی ماہرین کے نزدیک اِس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کی حمایت یافتہ مسلّح تنظیمیں بہت کم زور ہوچُکی ہیں۔ مجبوراً ایران کو خود براہِ راست اسرائیل پر حملے کرنے پڑے، جس کے جواب میں اُس پر بھی حملہ کیا گیا۔ بہتر ہوگا کہ ہم مشرقِ وسطی کی سیاسی صُورتِ حال پر نظر ڈال لیں، کیوں کہ اِسی سے جنگ بند یا جاری رکھنے کا فیصلہ ہوگا۔

امریکا، اس کے مغربی حلیف، بڑی حد تک روس اور چین بھی فلسطین تنازعے کا حل دو ریاستی فارمولے میں دیکھتے ہیں۔ عرب ممالک کا واضح موقف تو نہیں، لیکن فلسطینیوں کے حقوق پر عرب دنیا اور مسلم ممالک ایک ہیں۔ لیکن اس میں ایک اور پیچیدگی بھی ہے۔ فلسطین اور حماس کو عرب دنیا اور زیادہ تر مسلم ممالک ایک نہیں سمجھتے۔ 

ماہرین کے نزدیک اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ایران کے اُس اتحاد میں شامل ہے، جو حماس، حزب اللہ اور حوثیوں پر مشتمل ہے۔عرب دنیا، غزہ میں ہونے والے مظالم کی تو سخت مذمّت کرتی ہے، لیکن اِن تنظیموں کے فوجی کردار سے اُنہیں اختلاف ہے۔ حوثی تو سعودی تیل تنصیبات پر حملہ کر کے تین دن تک عالمی سپلائی روک بھی چُکے ہیں۔ عرب دنیا کسی ایسے تصادم میں اُلجھنا نہیں چاہتی، جسے ایران کی فوجی سپورٹ حاصل ہو۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ سعودی عرب سمیت عرب دنیا کے تمام اہم ممالک امریکا کی دفاعی چھتری استعمال کرتے ہیں۔قطر میں، جہاں پہلے افغانستان اور اب حماس، اسرائیل مذاکرات ہوئے، مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا امریکی فوجی اڈّا ہے۔ اِسی لیے حماس کے حملوں کو کسی بھی عرب یا مسلم مُلک کی فوجی معاونت حاصل نہیں ہوسکی۔ دراصل، دنیا بھر میں جنگ جُو گروہوں کی اب ویسی پذیرائی نہیں ہوتی، جیسے ویت نام کے زمانے میں ہوا کرتی تھی اور پھر نائن الیون کے بعد تو سب کچھ ہی بدل گیا۔ 

دہشت گردی کے خلاف جنگ نے بہت سے تصوّرات میں نئے رنگ بھرے۔ افغانستان ہی کا معاملہ دیکھ لیں طالبان اٹھارہ سالہ لڑائی کے دَوران مسلم دنیا میں پذیرائی نہ پاسکے۔ ان کی کام یابی اپنی جگہ، لیکن اُنہیں ابھی تک دنیا کے کسی بھی مسلم مُلک نے تسلیم نہیں کیا۔المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان نے ان کی بھرپور معاونت کی، مگر جب یہ حکومت میں آئے، تو اسے ہی آنکھیں دِکھانے لگے۔وہاں کی سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔

پاکستان میں معصوم شہریوں کا خون بہانے والوں کو وہاں پناہ دی جا رہی ہے۔ جب افغان مہاجرین کی واپسی کی بات ہوتی ہے، تو ہم دردی اور بھائی چارے کی دہائیاں دینے لگتے ہیں۔ چین، روس، یورپ، عرب اور مسلم دنیا اِس صُورتِ حال سے اچھی طرح واقف ہے۔ لہٰذا، وہ ایسی ملیشیاز کو کیسے سپورٹ کرسکتے ہیں، جن پر کسی حکومت کا کنٹرول نہ ہو۔ جو حکومت کرنے کی اہلیت رکھتی ہوں اور نہ ہی جن کے پاس اپنے لوگوں کے لیے کوئی معاشی بحالی پلان ہو۔

یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ کی جنگوں میں ایک اور فرق بھی ہے۔یوکرین کے صدر اسلحہ اور مالی امداد مانگتے ہیں تاکہ جنگ جاری رکھ سکیں۔یہاں سیز فائر کا کوئی ذکر نہیں، حالاں کہ مقابل روس جیسی بڑی فوجی اور معاشی طاقت ہے۔ دوسری طرف، مشرقِ وسطیٰ میں مسلسل جنگ بندی کی دہائیاں دی جا رہی ہیں، حالاں کہ وہاں بڑے بڑے مسلم ممالک موجود ہیں، مگر کوئی بھی فلسطینیوں کی مدد کو تیار نہیں، جیسے دنیا یوکرین کی مدد کر رہی ہے۔بس اسرائیل کی منّت سماجت کی جا رہی ہے کہ وہ اب تو بس کردے۔ 

یہ مسلم دنیا کی کس قدر بے بسی ہے۔یہ عرب اور مسلم دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ بھی ہے، اُنھیں سوچنا ہوگا کہ اُن سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔اُنہوں نے دوسروں پر بھروسا کرنے کی بجائے خود جدید ٹیکنالوجی کیوں نہ حاصل کی۔وہ معاشی طور پر مضبوط کیوں نہ ہوئے۔

شکوے شکایات اور جذبات اپنی جگہ، لیکن ان کی جنگ میں کوئی اہمیت نہیں اور یہ آج کی بات نہیں، بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ باقی جنگوں میں انسانی حقوق کو کس نے کب اہمیت دی، جنگوں کی ہزاروں سال کی کہانیاں اُٹھا کر دیکھ لیں۔ جو طاقت وَر ہے، وہی راج کرتا ہے۔

سوچنا ہوگا کہ کیا مسلمان دنیا سے اپیلیں اور فریادیں کرکے طاقت وَر بنے یا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا خود سیکھا۔ جہاں ایسا نہیں کیا، اُس کا انجام تاریخ میں محفوظ ہے۔ پھر یہ بھی ایک قابلِ غور امر ہے کہ فلسطین کی جدوجہدِ آزادی کی جنگ کون لڑے گا۔ فلسطینی یاعرب، حزب اللہ، ایران یا کوئی اور مُلک۔

اِن دنوں سعودی ولی عہد سے پاکستان سمیت مختلف ممالک کے حُکم ران ملاقاتیں کر رہے ہیں، شاید وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کی اِس علاقے میں کیا پالیسی ہوگی۔ ولی عہد کے ٹرمپ سے بہت اچھے تعلقات ہیں، تاہم وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ امن کے ساتھ ان کا دفاعی انحصار امریکا پر کم ہو، کیوں کہ وہ حوثی حملے کے نتائج دیکھ چُکے ہیں۔

امریکا اِن دنوں pivot پالیسی پر گام زن ہے، یعنی اس کی توجّہ انڈو چائنا ریجن پر ہے، جب کہ مشرقِ وسطیٰ میں وہ اسرائیل کے ذریعے اپنے مفادات کی حفاظت کرنا چاہتا ہے، جب کہ اسرائیل نے گزشتہ ایک سال میں جس طرح ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاز کو نقصان پہنچایا، وہ اس کے لیے خاصا تسلّی بخش ہے، لیکن وہ ایران سے براہِ راست ٹکراؤ بھی نہیں چاہتا، بلکہ وہ ایران کو اہمیت دینے کے لیے بھی تیار ہوجاتا ہے۔

اوباما دَور میں نیوکلیئر ڈیل کے بعد اس کے چالیس ارب روپے جاری کیے۔ ٹرمپ تاجرانہ ذہنیت کے مالک ہیں اور ہر مسئلے کو امریکا کے نفع، نقصان کی بنیاد پر دیکھتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی کابینہ کے لیے ابھی تک جن افراد کا انتخاب کیا ہے، وہ پرو اسرائیل اور ایران مخالف مشہور ہیں۔ 

ایسے میں اُن سے کیسے اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی اسرائیل مخالف کارروائی کی حمایت کریں گے۔نیز، چین اور روس بھی اسرائیل کے گہرے دوست اور دفاعی ٹیکنالوجی کے پارٹنر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کی کشیدہ صُورتِ حال کے باوجود اسرائیل ایک مستحکم مُلک ہے۔پھر یہ کہ چین اور روس اب وہ نہیں رہے، جو پہلے کبھی انقلابات پر یقین رکھتے تھے، اب یہ اقتصادی برتری ہی کو اوّلیت دیتے ہیں۔روس خود یوکرین میں اُلجھا ہوا ہے، وہ کوئی دوسرا محاذ کیوں کھولے گا۔

گویا، ٹرمپ کے لیے ماحول ساز گار ہوگا۔ہر طاقت یہی چاہے گی کہ امن عمل میں ٹرمپ پہل کریں، لیکن لگتا یہی ہے کہ یہ دوحا مذاکرات کی طرز پر نہیں ہوگا، کیوں کہ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے تیسرے ہی دن حماس کے دوحا آفس کو لپیٹ دیا گیا۔ مشرقِ وسطیٰ سے جنوبی ایشیا تک( بھارت کو چھوڑ کر) پورا علاقہ امریکا کے لیے کسی بڑی دل چسپی کا باعث نہیں۔

اِس لیے ایران اور سعودی عرب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کِن شرائط پر مشرقِ وسطیٰ میں امن لانا چاہیں گے۔اِس ضمن میں کئی آپشنز پر کام ہوسکتا ہے۔ جیسے ایران سے براہِ راست مذاکرات اور عرب، اسرائیل تحفّظات ختم کرکے نیوکلیٔر ڈیل کی بحالی، عرب، اسرائیل سفارتی تعلقات اور فلسطین کا دو ریاستی حل، جس میں کسی مسلّح تنظیم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

یاد رہے، امریکا کی تیل کی ترسیل میں دل چسپی نہ ہونے کے برابر ہے، کیوں کہ اب وہ دنیا کا سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا مُلک ہے، جب کہ یورپ گرین انرجی پر جارہا ہے، تو چین نے عالمی سولر مارکیٹ میں دھوم مچا رکھی ہے، جس سے فوسل فیول کی اہمیت بتدریج گھٹے گی۔غالباً اِسی تناظر میں ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں معاشی عمل تیز اور کشیدگی کم کی جاسکے گی، لیکن کیا یہ چوبیس گھنٹوں میں ممکن ہے، سب نگاہیں اِسی طرف ہیں۔