PTI اور جماعت اسلامی نے احتجاج کر کے اور نواز لیگ وPPP نے اسے برداشت کرکے اپنی اپنی طاقت کا اچھی طرح اندازہ لگا لیا ہے۔ دھرنوں کی طرف تو ذرا بعد میں آئیں گے۔ آئینی ترمیم کے دوران کی صورتحال سب سے زیادہ مولانا فضل الرحمٰن انجوائے کر رہے تھے۔ 342کے ایوان میں صرف 8ممبران رکھنے والے لیڈر کے ہاں ساری بڑی پارٹیوں کے مرکزی قائدین ایک دن میں تین تین چکر ایسے لگا رہے تھے جیسے یہ ’’طواف‘‘ ان پر فرض ہو چکا ہے۔ حالانکہ ان کا فرض کچھ اور تھا۔ اتنے تردد اور دن رات ایک کر دینے والی محنت کے باوجود 26ویں ترمیم اپنی کریڈیبلٹی پر سوالات چھوڑ گئی۔ جب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حکومت اور
اپوزیشن دونوں کی کھینچا تانی معتبری کے معیار پر نہیں پہنچ رہی تو کیا منطقی انداز یہ نہیں کہ کوئی اور راستہ اپنایا جائے؟ ہمیں حکومت اور اپوزیشن دونوں سے پیار ہے کیونکہ ان دونوں کو ملایا جائے تو تب پارلیمان بنتی ہے جس سے ہمیں بہت پیار ہے۔ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ معاشی۔ اس کے علاوہ پچھلے سولہ سال کے دوران تمام منتخب حکومتوں کے رہنما برملا جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں کہہ چکے ہیں کہ اگر سویلین حکومت کی بالا دستی قائم ہو جائے تو ہم تمام مسائل حل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ حل ہوتا تو پاکستان دنیا کا مالی طور پر مضبوط ترین ملک بن گیا ہوتا۔ کیونکہ ہم ایسا کرکے منہ کی کھا چکے ہیں۔ ایک زمانے میں پاکستان کا وزیر خزانہ اتنا اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا کہ اتنا تعلیم یافتہ وزیر خزانہ آج تک دنیا کے کسی ملک کا ہوا ہی نہیں۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے دنیا کی اس بہترین یونیورسٹی سے معاشیات میں PhD کی ہوئی تھی جس کیمبرج یونیورسٹی کا شعبہ معاشیات بلا شک و شبہ پوری دنیا میں نمبر ون مانا جاتا ہے۔ مگر معاشرے کو Uplift کرنے کیلئے انہوں نے حل یہ نکالا کہ حکومتی خرچے پر ان گنت لوگوں کو PhD کرنے کیلئے باہر کے ممالک بھیجا تھا۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا شاہد ہوں کہ PhD کرنے والے ان لاتعداد پاکستانیوں میں سے 90واپس آئے ہی نہیں۔ حتیٰ کہ کئی KRL کی لازمی سروس کرنے والے بھی پاکستانی پیسوں سے PhD کرنے کے بعد پاکستانی عدالتوں سے متعلقہ مقدمے جیت کر یورپ اور امریکہ میں سیٹل ہو گئے تھے۔ تو منطقی راستہ نہ بار بار وزیر خزانہ تبدیل کرنا ہے، نہ ہی IMF کی چاپلوسی کرنا ہے۔ سویلین بالا دستی اور معاشی بہتری کے لیے واحد منطقی راستہ ہے ’’حالات کی درستی۔ (1) سیاسی استحکام (2) آمدن میں اضافہ (3) اخراجات میں کمی (4) بہترین دماغ قائدانہ پوزیشنوں پر۔‘‘ اگر ہم یہ چار کام کرنا شروع کر دیں تو پاکستانی معاشرے کی سمت درست ہو جائے گی اور آہستہ آہستہ ’’حالات درست‘‘ ہو کر اس نہج پر آ جائیں گے کہ مذکورہ دو مسائل حل ہو جائیں۔ جب بل کلنٹن پہلی دفعہ صدر بنے تو امریکی معاشی حالت اتنی دگرگوں تھی کہ بجٹ کا بے بہا خسارہ سب سے بڑا مسئلہ بن چکا تھا۔ انہوں نے یہ مسئلہ وزیر خزانہ پر چھوڑنے کی بجائے اپنے ہاتھوں میں لیا اور پہلے ہی سال میں اپنی عقلمندی اور کامن سینس سے اسے حل کر دیا۔ حالانکہ صدر کلنٹن نے اسکول میں بھی معاشیات کا مضمون نہیں پڑھا تھا۔ بالکل اسی طرح پاکستان کے دو بڑے مسائل بھی وزراء کے لیول پر نہیں بلکہ حکومتی سربراہ، وزیر اعظم کے ہاتھوں ہی حل ہونگے۔ کیونکہ جو ملک تقریباً 3000ارب کا مقروض ہو اور اس کے باوجود مزید قرضے کے بغیر بجٹ بیلنس نہ ہو رہا ہو وہ ملک صحیح معنوں میں کرائسس میں ہے۔ پاکستان کے بیسٹ دماغوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ معاشی کرائسس سے نکلنے کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیوں کے ٹیلنٹڈ افراد سے فائدہ اٹھانا ہو گا۔ کیونکہ مندرجہ بالا دو مسائل پر کوئی نظریاتی اختلاف نہیں اور اگر دھرنے اور سیاسی انتشار جاری رہے گا اور روزانہ اربوں روپے کا نقصان ہو گا تو ملکی آمدن بڑھنے کی بجائے کم ہو گی۔ اگر تمام پارٹیوں کی حکومت ہو گی تو بیورو کریسی پر کنٹرول بہتر ہو گا۔ نتیجتاً بیوروکریسی کی کرپشن اور بے جا اخراجات انتہائی حد تک کم کیے جا سکیں گے۔ جب ساری پارٹیاں اکٹھی ہوں گی تو حکومت کو اپنی بقا کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنا نہیں پڑے گا اور یہ ہی صحیح معنوں میں سویلین بالادستی کی ابتدا ہو گی۔
PTI نے 24 نومبر کی احتجاجی کال سے اپنی اہمیت کا اظہار کر دیا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ عمران خان اسے فائنل کال ہی رہنے دیں گے۔ اس کے بعد احتجاج کی بجائے اپنی پوزیشن کو Consolidate کرنے پر توجہ دیں گے۔ میاں طفیل مرحوم اور قاضی حسین احمد مرحوم کی جوڑی کے بعد اب پہلی دفعہ جماعت اسلامی میں حافظ نعیم الرحمن اور لیاقت بلوچ کی زیرک اور متحرک جوڑی بنی ہے۔ جماعت کی نئی قیادت کو عوام میں متعارف کروانے کے لیے آج تک کے احتجاج کو کافی سمجھتے ہوئے ان دونوں قائدین کو چاہیے اب عوام کی خدمت پر توجہ دیں تاکہ 2029 میں جماعت کی ماضی بعید کی انتخابی کامیابی دہرائی جا سکے۔ قدرتی سی بات ہے کہ قومی حکومت کے قیام کے وقت اپوزیشن موجودہ سیٹ اپ پر اعتراض کرے۔ لیکن نواز شریف کی دور اندیشی، صدر مملکت آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی مہارت سے اس معاملے میں فائدہ اٹھانا جانتی ہے۔ اور جو ٹیلنٹ اس وقت پارلیمنٹ میں نہیں۔ اسے بھی تلاش کر کے اندر لایا جا سکتا ہے۔ چونکہ امریکہ کے حالات بالکل مختلف تھے اس لیے کلنٹن کو قومی حکومت کی ضرورت نہیں تھی جبکہ ہمیں سوا چار سال کے لیے ہے۔