• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین! سیاست ہمیشہ ریاست اور قوم کی خدمت کیلئے ہوتی ہے، ذاتی مفادات کا حصول بھی ایک حد میں رہ کر ہی کیا جا سکتا ہے، لیکن کچھ ریڈ لائنز ایسی ہیں، جنہیں عبور کرنا ہمیشہ خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس وقت ہر طرح کی لائن روندی جا چکی ہے، سیاسی رواداری کی ریڈ لائن ،ایک دوسرے کو برداشت کرنے ،ملکی مفادات پر اپنے مفاد کو قربان کرنے اور ہر شے پر وطن کو ترجیح دینے کی تمام ریڈ لائنز کب کی روندی جا چکیں۔ اس وقت قوم ایک عجیب منظر دیکھنے پر مجبور ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے زعما ایک دوسرے پر آتشیں لفظوں کی گولہ باری اس طرح سے کر رہے ہیں کہ دشمن ملک کے خلاف بھی ایسی شعلہ نوائی کم ہی دیکھنے کو ملے گی۔ دونوں جانب اس بات کا احساس وجود ہی نہیں رکھتا کہ ایک دوسرے کے بارے میں یہ زہر فشانی نوجوانوں کے اذہان و قلوب میں کیا تلاطم پیدا کر رہی ہے اور نئی نسل کو کس طرح سے ملک کے مستقبل سے مایوس کر رہی ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ مسلح جتھوں کا وفاقی دار الحکومت پر یلغار کرنا کوئی جواز نہیں رکھتا لیکن حکومت کی ناکامی نہیں کہ وہ مظاہرین کو انگیج کرنے اور ریڈ زون تک پہنچنے سے روکنے کے پر امن ذرائع استعمال کرنے میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے مظاہرین ریڈ زون تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔ سوال یہ ہے کہ دشمنوں میں گھرا ہوا پاکستان کیا اس صورتحال کا متحمل ہو سکتا ہے کہ سیاسی رہنمائوں کی آگ اگلتی زبانوں سے معاشرے میں نفرتوں کے الائو جلا دئیے جائیں؟ ہم بار بار فریقین کو سمجھا رہے ہیں کہ سیاست، اقتدار اور حکومت و اختیار صرف اسی صورت ہے کہ جب ملک قائم ہے۔ اگر ان کرتوتوں اور ذاتی وگروہی انا اور ضد کی وجہ سے ملک کو کوئی نقصان پہنچا تو کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا، اپوزیشن اور حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے کہ نفرت اور عناد کے شعلوں کو ہوا دینے کے بجائے بجھانے کی کوشش کریں، زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے مرہم رکھنے کی کوشش کریں، پی ٹی آئی نے اپنی فائنل کال کے نام پر زور اور طاقت کا مظاہرہ کر دکھایا، ریاست نے اپنی رٹ قائم کر کے دکھا دی۔ اب فریقین کو چاہئے کہ ملک کی خاطر مل کر آگے بڑھیں اختلافات کو ختم کرنے کا راستہ نکالیں۔ اقتدار، اختیار اور طاقت حکومت کے پاس ہے، کچھ دینے کا اختیار اسی کا ہے، لہٰذا لازم ہے کہ حکومت اب بات چیت کا ڈول ڈالے اور تمام سیاسی عناصر کو ایک میز پر لائے، پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ صدر پاکستان اور اسپیکر قومی اسمبلی دونوں کی ذمہ داری ہے کہ جلتی پر تیل ڈالنے والوں کو روکیں اور آگ بجھاکر امن کی جانب کوئی راستہ نکالیں ،اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو خطرہ ہے کہ جمہوریت کا دفتر ہی نہ لپیٹ دیا جائے ۔اس وقت ملک میں جتنے بھی حالات خراب ہیں یا سیاسی اور معاشی عدم استحکام دکھائی دے رہا ہے ،اس کی بنیادی وجہ بات چیت کے بجائے ضد، انا اور تشدد کا راستہ اختیار کرنا ہے، المیہ یہ ہے کہ دونوں فریق اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں ۔بلاول بھٹوکی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں اور 9مئی کو جو کچھ ہوا وہ سیاست نہیں ،وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا لب ولہجہ اور وفاق پاکستان کو دھمکیاں بھی سیاسی طرز عمل نہیں۔ یہ پہلی بار نہیں کہ وفاق وصوبوں میں ایک دوسرے کی مخالف سیاسی جماعتوں کی حکومت آئی ہے ،حقیقت یہ کہ بہت کم ایسا ہو اہے کہ 4صوبوں اور وفاق میں ایک ہی پارٹی کی حکومت آئی ہو ، 90کی دہائی میں وفاق اور پنجاب میں ایک دوسرے سے متحارب جماعتیں برسر اقتدار رہی ہیں ،احتجاج بھی ہوتا رہا لیکن کبھی کسی اکائی نے وفاق پر چڑھائی کی دھمکی دی نہ چڑھائی کرنے کی کوشش کی ۔ اسےملک کی بد قسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک کو یکجہتی کی ضرورت ہے اور عالمی سطح پر اور خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کے مفادات کے تحفظ کی ضرورت ہے ،یہاں وفاق اور صوبہ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی یا گورنر راج مسئلہ کا حل نہیں بلکہ مزید بگاڑ کا باعث بنے گا ۔ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے کارپر دازان بشمول بلاول بھٹو، اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن سمیت تمام اسٹیک ہولڈر ز کو چاہئے کہ ضد اور انا کا خول توڑیں ،تباہی بہت ہوچکی ،سیاسی اختلافات دشمنی کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو اور دیگر تمام حکومتی زعما کو چاہئے کہ لاٹھی چلانے کی بات کرنا چھوڑ دیں ، بات چیت کا راستہ تلاش کریں ۔جس طرح کل تک پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دشمن تھے، آج ایک گھاٹ پرپانی پیتے ہیں ،اسی طرح آج کی اپوزیشن کو بھی اسی طرح قریب لایا جائے تو سیاسی استحکام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔اپوزیشن سے بھی کہنا چاہیں گے کہ ضد ،انا اور دھمکیوں سے کبھی مسائل حل نہیں ہوتے ،صرف پاکستان نہیں دنیا کے کسی کمزور ترین ملک میں بھی ریاست کو مسلح جتھوں اور دھمکیوں سے ڈرانا ممکن نہیں، لازم ہے کہ زمینی حقائق کو تسلیم کریں اور بات چیت کا راستہ اختیار کریں ،بات چیت کے بغیر سیاسی عدم استحکام سمیت کسی بھی مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں جتنی جلدی اس حقیقت کو تسلیم کر لیں گےاتنا ہی بہتر ہے۔ ہم بار بار ایک ہی بات پر توجہ دلارہے ہیں کہ بات چیت، مذاکرات ،مفاہمت اور مصالحت کے سوا، نظام، ملک اور سیاسی اکائیوں کی بقا، استحکام اور بہتری کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ سیاسی استحکام سب کی ذمہ داری ہے، دیکھا جائے تواس میں ایک بڑی رکاوٹ حزب اختلاف بھی ہے ،9مئی کا حملہ اور پچھلے دنوں اسلام آباد میں ہونے والے واقعات سیاست نہیں ،جو اپوزیشن جمہوریت پر یقین نہ رکھتی ہو وہ کیسے امیدرکھ سکتی ہے کہ اس کے ساتھ جمہوری رویہ اپنایا جائے گا۔ کسی کو حق نہیں لشکر بنا کر حملہ کرے، ہاںپر امن احتجاج کرنا سب کا حق ہے۔

تازہ ترین