یورپین یونین نے ایران کے خلاف ہر شعبے میں سخت پابندیوں پر اتفاق کر لیا ہے۔ ہالینڈ کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ ان پابندیوں میں تیل اور گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری کو روکنا اور ریفائنگ ،نیز قدرتی گیس کی پیداواری صلاحیت کو کم کرنا ہے، یہ اقدامات ان پابندیوں سے متجاوز ہیں جن پراقوام متحدہ نے اتفاق کیا تھا۔ ادھر جرمنی کے ایک ہفتہ روزہ نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کیلئے سنجیدگی سےغور کر رہے ہیں ۔ ان دنوں امریکی اور یورپی رہنما کھلے عام اس تنازع پر گفتگو کر رہے ہیں اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ تازہ ترین سروے میں 62فیصد امریکیوں اور 74فیصد اسرائیلیوں نے ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنے کیلئےفوجی مداخلت کی حمایت کی ہے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایران کی درجنوں ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی امریکہ کے پاس صلاحیت ہے امریکہ نے ایران کو گھیرے میں لے لیا ہے، مغرب میں افغانستان (اور پاکستان) مشرق میں عراق،ترکی اور قطر اور جنوب میں عمان اور ڈیگوگارشیا میں امریکہ اپنے فوجی اڈے قائم کر چکا ہے خلیج کے پانیوں میں امریکی بحریہ کے جہاز موجود ہیں جو حملہ اور جنگی لڑاکا طیاروں اور کروز میزائلوں سے لیس ہیں۔ تاہم ایرانیوں نے بھی دفاع کی تیاری کر رکھی ہے اہم ترین علاقوں پر فضائی دفاعی نظام قائم کیا جا چکا ہے اور ایٹمی پلانٹ کے حساس حصوں کو زمین کے اندر 80فٹ کی گہرائی میں منتقل کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایران اسی حصار میں مقید رہے گا؟ میرے حساب سے ایسا نہیں ہو گا کہ ایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے سربراہ نے ایٹمی ایندھن کے تبادلے کے سلسلے میں تہران اعلامیہ کی حمایت کی ہے ہالینڈ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق آئی اے ای اے کے سربراہ نے رومانیہ کے وزیر خارجہ سے ملاقات میں اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ تہران ترکی اور برازیل کا مشترکہ اعلامیہ ایران کے ایٹمی مسئلے کے حل میں غیر معمولی مدد کرے گا اس اعلامیہ کے مطابق ایران تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر کیلئے 120کلوگرام ایٹمی ایندھن کے عوض لگ بھگ 1200کلو گرام کم افزدہ یورنیم ترکی منتقل کرے گا اور اسکے مقابل ترکی کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنے ایٹمی ایندھن کی منتقلی میں کسی بھی قسم کا خلل پیدا ہونے کی صورت میں ایران کا پورا یورینیم اسے واپس کر دے گا تا ہم ایرانی حکومت کے مطابق ایران بیرون ملک یورینیم منتقل کرنے کیلئے تیار نہیں۔ تہران نے آئی اے ای اے کے سربراہ کو مطلع کر دیا ہے کہ وہ اس بات کا خواہاں نہیں کہ یورینیم کو ایران سے باہر بھیجا جائے اس کے بجائے اس نے ایرانی علاقہ ہی میں نیو کلیئر مادہ کو آئی اے ای اے کے کنٹرول میں دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ادھر ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ علی اکبر نے کہاہے کہ یورپی یونین کے ساتھ ایٹمی ایندھن کے تبادلے کا سودا اب بھی ممکن ہے۔ ایران کا یہ مطالبہ رہا ہےکہ ایندھن کا تبادلہ اس کی سرزمین پر ہوگا، ایران کا یورینیم سربمہر کر کے ملک کے اندر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سپرد کر دیا جائیگا تا آنکہ اسے میڈیکل ریسرچ ری ایکٹر کیلئے ضروری ایندھن مل جائے۔ علی نے یہ بھی کہا ہے کہ ایران کو اگر بیرون ملک سے 20 فیصد (زرخیز افزدہ) یورینیم مل جائے تو وہ اس کی پیداوار روک دیگا،مغربی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایران کا پروگرام نیو کلیئر اسلحے کی تیاری کیلئے ہے یورپین یونین کی تحدیدات کے ذریعے تجارت بشمول دوہرے استعمال کی اشیاء کی تجارت بینکنگ و انشورنس ٹرانسپورٹ سیکٹر بشمول جہاز رانی اور فضائی کارگو نیز تیل اور گیس کی صنعت کے اہم شعبوں پر دباؤ ڈالنا ہے اور امکان ہے کہ ان اقدامات کے سبب ایران پر زبردست مالیاتی دباؤ پڑیگا ادھر یورپین یونین کے بعض ممالک بالخصوص جرمنی، جس نے ایران کے تیل اور گیس کے شعبے میں زبردست سرمایہ کاری کر رکھی ہے پابندیوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ادھر وال سٹریٹ جنرل نے اطلاع دی ہے کہ ایران نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جرمنی میں موجود ایرانی ملکیتی بینک کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے مذکورہ بینک (ای ائی ایچ) نے ایرانی کمپنیوں کیلئے ایک بلین ڈالر سے زائد کی مدد دی ہے اخبار کے مطابق یہ ایرانی کمپنیاں ایران کے فوجی اور بلاسٹک میزائل پروگرام سے وابستہ رہی ہیں اقوام متحدہ کی پابندیوں کے تحت دنیا کے ممالک کو ایران کیلئے ممنوعہ اشیاء لے جانے والے مشکوک جہازوں کو سمندر میں معائنہ کا حق حاصل ہے انہوں نے مزید اقدامات پر بھی اتفاق کیا ہے جن میں ایران کے شعبہ توانائی میں سرمایہ کاری پر پابندیاں بھی شامل ہیں، تہران نے بارہا کہا ہے کہ اس کا نیو کلیئر پروگرام مکمل طور پر پُرامن ہے ایران دنیا کا پانچواں سب سے بڑا کروڈ آئل برآمد کنندہ ملک ہے لیکن اسکے پاس ریفائینگ صلاحیت کم ہے یورپین ممالک نے اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ایران نے ایسے کئی مواقع سے استفادہ نہیں کیا جو اس کے نیو کلیئر پروگرام کی نوعیت پر بین الاقوامی برادری کی فکر مندیوں کو دور کرنے کیلئے پیش کیے گئے تھے ان حالات میں نئے تحدیداتی اقدامات ناگزیر ہو گئے ہیں۔ ایران کو چاہیے کہ وہ اپنے حق کیلئے لڑنا چھوڑ دے۔