• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس ہفتے ماہ و سال کی گردش غیر معمولی طور پر تیز رہی۔ وقفے وقفے سے عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے گئے۔ ایک رات اچانک ٹی وی میں شور اُٹھا کہ جنوبی کوریا کے صدر نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا ہے۔ صبح اُٹھے، تو معلوم ہوا کہ مارشل لا صرف چھ گھنٹے جاری رہا، کیونکہ پارلیمنٹ نے اُس کی توثیق سے انکار کر دیا تھا اور عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ بعد میں فوج کے سربراہ نے مارشل لا نافذ کرنے پر قوم سے معافی مانگی جبکہ سابق وزیرِدفاع نے جرم کا احساس کرتے ہوئے خودکشی کرنے کی ناکام کوشش کی۔ یاد رَہے کہ جنوبی کوریا کا پاکستان کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے جاپان کا پورے کوریا پر قبضہ تھا۔ اُس کی شکست کے بعد امریکہ، سوویت یونین اور چین اِس ملک پر قابض ہونے کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوئے۔ اُنہی دنوں امریکہ اور پاکستان میں باہمی تعاون کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت پاکستان کو اَمریکی امداد ملنا شروع ہوئی تھی۔ امریکہ نے پاکستان سے اپنی فوجیں جنوبی کوریا بھیجنے کے لیے کہا، مگر حکومتِ پاکستان نے قومی مفاد میں اُس کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔

جنوبی کوریا نے اپنی معاشی ترقی کا سفر پاکستان کے پہلے پنج سالہ منصوبے سے کیا جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے گورنر جناب زاہدحسین نے تیار کیا تھا۔ جنوبی کوریا نے اُس منصوبے پر پوری دلجمعی سے عمل درآمد کیا اور بلندیوں کو چھوتا چلا گیا جبکہ ہم دائروں ہی میں گھومتے رہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جن دنوں جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان جنگ جاری تھی، تو اُس خِطے میں کپاس اور پٹ سن کی مانگ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا، چنانچہ پاکستان کو بہت بڑی مقدار میں زرِمبادلہ حاصل ہونے لگا اور اُس کے روپے کی قدر بھارتی روپے سے ڈیڑھ گنا بڑھ گئی۔ بھارت نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر اُس نے اپنے روپے کی قدر کم نہ کی، تو وہ اُس کے خلاف طاقت استعمال کرے گا۔ پاکستان کے وزیرِاعظم لیاقت علی خاں نے اِس دھمکی کا منہ توڑ جواب دیا، چنانچہ بھارت بلبلے کی طرح بیٹھ گیا۔

اِسی ہفتے دوسرا غیرمعمولی واقعہ شام میں ظہورپذیر ہوا جو ایک دنیا کو حیرت زدہ کر گیا۔ اِس ملک میں 80 فی صد شافعی سُنی آباد ہیں۔ ایک زمانے میں یہاں اخوان المسلمون کا بڑا عمل دخل تھا۔ مَیں اُنہی دنوں دمشق گیا اور مجھے شامی خواتین کی آنکھوں کی حیا نے بہت متاثر کیا تھا۔ پھر شومئی قسمت سے اُس ملک میں بعث پارٹی قائم ہوئی جو علویوں پر مشتمل تھی۔ علوی اپنے عقائد اور خیالات کے اعتبار سے اہلِ تشیع سے یکسر مختلف ہیں۔ بعث پارٹی کے ذریعے حافظ الاسد شام پر قابض ہوا اَور اَخوان المسلمون پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیے۔ تمام بڑے شہروں میں اُن کا قتلِ عام ہوا۔ حافظ الاسد کے بعد اُس کا بیٹا بشارالاسد تخت نشین ہوا اَور وُہ ظلم و وَحشت میں باپ سے بھی دو قدم آگے نکل گیا۔ تاریخی اعتبار سے شام اسرائیل کا عسکری حریف رہا ہے۔ اسرائیل نے اُس کی جولان کی چوٹیوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل اور اَمریکہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے ایران اور رُوس شام کا ساتھ دیتے رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ روس نے فوجی اڈے بھی قائم کر رکھے تھے۔

حافظ الاسد اور اس کے بعد بشار الاسد کی شام پر حکمرانی کا عرصہ 54برس پر محیط رہا ۔بشارالاسد کے مظالم کے خلاف مختلف سیاسی اور دِینی قوتیں یکجا ہوئیں اور اُنہوں نے اکتوبر 2024 میں ’تحریکِ آزادیٔ شام‘ شروع کی۔ عوام اور فوج دونوں ہی حکومت سے بیزار تھے، اِس لیے تحریک کم وقت میں بےحد طاقتور ہو گئی اور 8 دسمبر کی رات پتہ چلا کہ بشارالاسد نے روس میں پناہ لے لی ہے۔

بشارالاسد حکومت کے خلاف ملٹری آپریشن، اتھارٹی کے کمانڈر اَبومحمد الجولانی کر رہے ہیں جو بہت دانا اور صلح جُو معلوم ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے امن و اَمان قائم رکھنے کیلئے اعلان کر دیا ہے کہ بشارالاسد کے وزیرِاعظم اپنی ذمےداریاں ادا کرتے رہیں گے۔ اُنہوں نے فوج کیلئے بھی عام معافی کا اعلان کر دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مختصر مدت کیلئے قومی حکومت قائم کریں گے اور اِنتخابات کیلئے مناسب انتظامات کریں گے۔ خلیج کی اہلِ ثروت شخصیتوں اور حکومتوں کو شام کو اَپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے دستِ تعاون دراز کرنا چاہیے۔ اُن کی پشت پناہی سے شام روس کے اثرونفوذ سے بھی آزاد ہو جائے گا اور عالمی برادری میں اپنا باوقار کردار بھی ادا کر سکے گا۔ ترکیہ شام کا ہمسایہ ہے اور اُس نے اُن مجاہدین کو بھرپور مدد فراہم کی ہے جو بشارالاسد کی آمریت کے خلاف کفن باندھ کر نکلے تھے۔ اُمید ہے کہ اسلامی اخوت کا یہ رشتہ مزید مستحکم ہو گا۔ایک انتہائی عجیب و غریب واقعہ پاکستان میں بھی رونما ہوا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار فوج نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور سابق کورکمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل میں چارج شیٹ جاری کر دی ہے جس میں انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اُس چارج شیٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اُن کے خلاف یہ تحقیقات بھی ہو رہی ہیں کہ 9مئی کے پُرتشدد وَاقعات میں اُن کا مذموم سیاسی عناصر کے ساتھ کس نوعیت کا تعلق تھا۔ کورٹ مارشل کے قواعد و ضوابط سے باخبر تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اور عمران خاں کو نہایت کڑی سزائیں دی جائیں گی۔ بےلاگ احتساب کا تقاضا بھی یہی ہے، مگر یہ بات پاکستان کے کسی طور بھی مفاد میں نہیں ہو گی کہ ایک اور وَزیرِاعظم کو مسٹر بھٹو جیسے انجام سے دوچار کر دیا جائے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو اَپنا کردار اَدا کرنے کیلئے آگے بڑھنا چاہیے۔ حکومت مذاکرات کیلئے باقاعدہ کمیٹی کا اعلان کرے اور ڈاکٹر یاسمین راشد، محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمات واپس لیے جائیں، کیونکہ وہ حالات کو معمول پر لانے میں اہم کردار اَدا کر سکتے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گردشِ لیل و نہار میں ٹھہراؤ لانے کیلئے عمران خاں اور اُن کے پرستاروں کو اَپنے رویّوں کو شائستہ بنانا اور مکالمے کا کلچر اختیار کرنا ہو گا۔

تازہ ترین