• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز میرے دوست ساجد عطا گورایہ کا فون آیا، کہنے لگے ’’آپ کو یاد ہے کہ فورٹریس اسٹیڈیم میں ہارس اینڈ کیٹل شو ہوا کرتا تھا، اس دوران پورا لاہور سرگرم ہوا کرتا تھا بلکہ یہ شو ملکی سطح کا تھا، اس میں بہت سی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں، حکومتوں نے پتہ نہیں اسے کیوں بند کر دیا؟ میری خواہش ہے کہ ہم کالا شاہ کاکو میں جی سی کے نئے کیمپس میں ہر سال راوینز ہارس اینڈ کیٹل شو منعقد کیا کریں، ایک میلہ پنجابی کے حوالے سے بھی جی سی میں ہونا چاہیے، جس میں سیمینار اور مشاعرہ ہو۔‘‘ ساجد گورایہ کی گفتگو سننے کے بعد میں نے ان سے عرض کیا کہ راوینز ہارس اینڈ کیٹل شو کروانا بہت اچھی بات ہے، اس میں ہم اور کئی چیزیں شامل کر سکتے ہیں، جہاں تک پنجابی کا تعلق ہے، اس سلسلے میں میری عرض یہ ہے کہ اسے ہم سیمینار اور مشاعرے تک محدود نہ رکھیں، اس میں پنجابی کے لوک گیت، بولیاں، ماہیے اور ٹپے سب شامل ہوں، پنجاب کے صوفی شعراء کے کلام اس قدر اہم ہیں کہ سیف الملوک، ہیر وارث شاہ اور کلام باہو کا مقابلہ کروایا جا سکتا ہے، پنجابی بڑی وسیع زبان ہے، اس میں موسیقی اور مزاح بھی ہے، ڈرامہ بھی شامل کیا جا سکتا ہے، پنجابی جگت بھی لا جواب ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری میں ہندی، اردو گیتوں کے لئے موسیقی میں جب تک پنجابی بیٹ شامل نہیں کی جاتی، اس وقت تک ڈانسنگ سانگ بنتے ہی نہیں، کیا یہ آپ کے سامنے نہیں کہ لعل شہباز قلندر، سہون شریف سندھ میں مدفون ہیں مگر ان کی دھمال پنجابی موسیقیت پر چلتی ہے۔ پنجابی کے حوالے سے میری بات ممتاز صحافی سہیل وڑائچ اور ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال سے ہوئی تھی، بیرون ملک ڈاکٹر سریندر سنگھ گل اور لندن میں آصف سلیم مٹھا سے بات ہوئی تھی، اپنے پنجابی شاعر ابرار ندیم چند سال سے مسلسل مجھے کہہ رہے ہیں کہ پنجابی کے لئے کام کیا جائے۔ پنجابی زبان کے ممتاز شاعر افضل ساحر کی شاعری کا تو میں زمانہ طالب علمی ہی سے عاشق ہوں، امرتا پریتم اس عشق میں بعد میں گرفتار ہوئیں، پنجابی کے حوالے سے مدثر اقبال بٹ اور ڈاکٹر جاوید اکرم کا بھی بہت کام ہے پھر ہم ڈاکٹر

صغریٰ صدف سے رہنمائی لے سکتے ہیں، کینیڈا میں مقیم ہمارے گجراتی دوست سلیم پاشا پنجابی کے لئے بڑا کام کر رہے ہیں اور پھر اپنے طارق حمید پنجابی شاعروں کے حافظ ہیں۔ راوینز ہارس اینڈ کیٹل شو اور پنجابی زبان کی خدمت کے لئے مجھے پھر زیادہ عرصہ لاہور میں بیٹھنا پڑے گا، فی الحال میں اسلام آباد میں ہوں، لاہور آتا ہوں تو مل بیٹھ کر منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جس طرف میری توجہ ساجد گورایہ نے دلوائی ہے، یہ بہت عمدہ کام ہے، واقعی ہمارے پنجاب میں میلے ختم ہو گئے، میلوں کے خاتمے میں حکومتوں کا قصور ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے خاندان کے بزرگ ڈیرہ بابا نانک کے مقام پر بیساکھی کے میلے میں شریک ہوتے تھے، ابھی پچیس تیس برس پرانی بات ہے کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں سرکاری سطح پر جشن بہاراں کے میلے ہوتے تھے جبکہ پرائیویٹ سطح پر ہر دوسرے تیسرے گاؤں میں کوئی نہ کوئی میلہ لگتا تھا، یہ ایک طرح سے معاشی سرگرمی بھی ہوتی تھی، لوگوں کی انٹرٹینمنٹ کا بندو بست بھی ہوتا تھا، ان میلوں پر پنجابی کے روایتی کھیلوں کا مظاہرہ بھی ہوتا تھا، کشتیاں ہوتی تھیں، کبڈی ہوتی تھی مگر اب ان ساری رونقوں کو پتہ نہیں کون سا سانپ سونگھ گیا ہے۔ جدید دنیا میں میلوں کو فیسٹیول کا نام دے دیا گیا ہے ورنہ ہماری نو جوانی میں تو میلہ چراغاں اور فیض امن میلہ ہوا کرتا تھا، عرس بھی ہوا کرتے تھے، ٹوپی، تسبیح بکے تو وہ بھی معاشی سرگرمی ہے۔ وصی شاہ کے پروگرام میں عثمان پیر زادہ ایک فیسٹیول کا اور اس میں ہونے والی سرگرمیوں کا حوالہ دے رہے تھے اور پھر انہوں نے یہ کہا ’’ایک پٹاخے کا بہانہ بنا کر فیسٹیول ختم کر دیا گیا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بات پٹاخے سے گولی تک آ گئی ہے، ہمارے ہاں دو سیاسی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے جلسے فیسٹیول کی طرح ہوتے تھے، پی ٹی آئی نے اس فیسٹیول میں بہت سے رنگ بھرے مگر گولی نے رنگوں پر گرد و غبار پھیر کے رکھ دیا ہے، جانے کب بہار آئے، کب بارش ہو، درختوں کے پتے دھلیں اور نئے پھول کھلیں۔ یاد رکھیئے! جمہوریت کے گلستاں میں آمریت کی کھاد سے کام نہیں چلایا جا سکتا۔ آخر میں ناصر بشیر کا شعر پیش خدمت ہے کہ

ناصر بشیر کس کی نظر گھر کو کھا گئی

سایہ سا بچھ گیا ہے مرے آنگن میں خوف کا

تازہ ترین