• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1971 ءکے جنگی حالات کے مشاہدات و تجربات کا تجزیہ بعد میں کرینگے۔ پہلے اس خوفناک محرومی کو سامنے رکھئے جو 13سال 2مہینے سے زیادہ غیر نمائندہ حکومتوں نے پیدا کی۔7اکتوبر 1958ء سے 16دسمبر 1971ءتک وفاقی حکومت میں مشرقی پاکستان کی شراکت داری نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی۔ اور اس دوران وہاں کا چیف سیکرٹری بھی ہمیشہ مغربی پاکستانی ہی کا لگایا جاتا تھا جبکہ مغربی پاکستان میں ایک دن کیلئے بھی یہ پوزیشن کسی مشرقی پاکستانی کے حوالے نہیں کی گئی تھی۔ بنگالی سیاسی لیڈروں کے اس احتجاج کو حقارت سے رد کیا جاتا رہا کہ’’کیا ہم لوگ آپ کے کولونیل غلام ہیں جو ہمارے صوبے میں ہمارا چیف سیکرٹری نہیں لگاتے ہو‘‘۔ بالکل اسی طرح شیخ مجیب الرحمٰن کے اس اعتراض کو بھی ایڈریس نہیں کیا گیا تھا جسے وہ بار بار دہراتے تھے’’مجھے اسلام آباد کے در و دیوار سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے‘‘۔ اس ڈکٹیٹرشپ کے دوران اگر بنیادی جمہوریتوں کے نام پر نام نہاد الیکشن ہوئے بھی تو ریاستی مشینری کو دھاندلی کے لیے استعمال کر کے ڈکٹیٹر ایوب کو کامیاب قرار دیا گیا۔ جبکہ ڈکٹیٹرشپ کے تمام مظالم کے باوجود عوام نے کراچی اور ڈھاکہ میں مادرملت کو جتوا کر تاقیامت تاریخ میں عوام کا حقیقی انتخاب درج کر دیا۔ عوامی رائے کے بر خلاف ڈکٹیٹرشپ مسلط ہونے سے مسلم لیگ کے خالق اور انگریزوں کیخلاف تحریک آزادی کی جد وجہد کی ابتدا کرنیوالے بنگالیوں کیلئے محرومی اور نفرت کے جذبات لیکر بیٹھ جانا ممکن نہیں تھا۔ اس زمانے میں اگر ڈکٹیٹر کی بجائے کوئی لیڈر وفاق میں حکمران ہوتا تو بنگالیوں کی سیاسی تاریخ اور ایجیٹیٹ (Agitate) کرنے کی مہارت مدنظر رکھ کر انہیں کارنر کرنے کی بجائے قومی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل رکھنے کی سرتوڑ کوشش کرتا۔ مگر 13 سال سے زیادہ عرصہ حکمرانی ان ڈکٹیٹروں نے کی جو قابلیت کی بجائے صرف قد کی بنیاد پر شخصیت کی اہمیت کا فیصلہ کرنا جانتے تھے۔ مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ 1965ءکی جنگ میں PAF کا ہیرو ایم ایم عالم بھی مشرقی پاکستانی تھا جبکہ پاک آرمی کا ہیرو بھی ایک مشرقی پاکستانی کرنل عثمانی ہی تھا۔ چونڈہ سیکٹر میں بھارتی ٹینکوں کی یلغار کو روکنے کے عظیم کارنامے کی کامیاب ترین منصوبہ بندی کا سہرا اسی بالکل چھوٹے سے قد کے کرنل عثمانی کے سر ہے۔ ڈکٹیٹر ایوب نے 1969ءمیں حکومت سے جاتےہوئے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کر کے اقتدار سپیکر قومی اسمبلی کی بجائے آرمی چیف کے حوالے کردیا۔ چونکہ سپیکر عبد الجبار خان مشرقی پاکستانی تھے اسلئے تمام بنگالیوں کی سخت دل آزاری ہوئی کہ بنگالی ہونے کے ناطے اقتدار ان کے حوالے نہیں کیا گیا۔ جس سے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان اٹھا ۔ صدیق سالک کی کتاب ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا ‘ میں تحریر کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ بحیثیت کیپٹن جب وہ ڈھاکہ ائیرپورٹ پر اترے تو تھوڑی دیر میں انہیں بہت بڑے سوال کا جواب ملنا شروع ہو گیا۔ تحریک پاکستان شروع کرنے والے مشرقی پاکستانی پاکستان سے جدا کیوں ہونا چاہتے ہیں؟ ۔ ائیرپورٹ سے نکلتے ہی جب انہوں نے قریب سے گزرتے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس 14 ۔15 سالہ بنگالی لڑکے کو فوجی گاڑی میں سامان رکھنے کو کہا تو اس نے بڑی خوشی سے ہامی بھر لی۔ مگر سامان رکھے جانے کے بعد جب انہوں نے لڑکے کو ٹپ دینا چاہی تو گاڑی لے کر آنے والا فوجی جوان گویاہوا ’’سر ، ٹپ دے کر ان لوگوں کی عادتیں خراب نہ کریں‘‘۔ اپنی حالت سے وہ لڑکا مزدور لگ رہا تھا اور یہ ٹپ اس کی مزدوری تھی جو اس کا حق تھا۔ چونکہ سالک مغربی پاکستان سے فریش مائنڈ کے ساتھ پہنچے تھے۔ اس لیے فوراً سمجھ گئے کہ فوجی جوان کی سوچ کا انداز سرا سر غلط ہے تاہم اس کا دل رکھنے کے لیے ٹپ دینے سے باز رہے۔ اگر وہ جوان ان بنگالیوں کو اپنے برابر کا پاکستانی شہری سمجھتا تو کولونیل دور کے غیر ملکی حکمرانوں کے الفاظ’’ان لوگوں ‘‘ استعمال نہ کرتا۔ اس رویئے سے اس بنگالی لڑکے کے دل میں مغربی پاکستانیوں کیخلاف جو ناپسندیدگی کے جذبات پیدا ہوئے ہونگے اس پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ سالک راستہ بھر آس پاس کے حالات کا جائزہ بھی لیتے گئے۔ اور کینٹ پہنچنے کے تھوڑا عرصہ بعد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ ہمارے اپنے لوگوں نے ہی اپنے منفی رویوں سے علیحدگی پسندی کے جذبات کی آبیاری کی ہے۔

یہ بات قابل غورہے کہ مادرملت کا وفادار کارکن اور صدارتی انتخابات میں انکا پولنگ ایجنٹ شیخ مجیب الرحمٰن جو 7 مارچ 1971 کو پلٹن میدان میں متحدہ پاکستان میں اپنی آخری تقریر میں بھی پاکستانی فوج کو’’فوجی بھائیو‘‘ کہہ کے مخاطب کرتا ہے اسے اچانک غدار قرار دیکر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد رہا کیا جاتا ہے ! حقیقتاً جھگڑا صرف ایک تھا۔ مجیب کے وزیراعظم بننے پر یحییٰ صدر رہنا چاہتا تھا۔ جبکہ مجیب مغربی پاکستان سے کسی قد آور سیاسی لیڈر کو یہ جلیل القدر عہدہ سونپنا چاہتا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر 1970 میں کوئی سیاسی لیڈر حکمران ہوتا تو یقیناً عوامی لیگ کو چھ نکات کے منشور سے الیکشن لڑنے کی اجازت ہی نہ دیتا۔ کیونکہ اس کو انکے مضمرات کا ادراک ہوتا۔ لیکن اگر اس وقت کے ڈکٹیٹر نے اپنی کم عقلی کیوجہ سے اجازت دے دی تھی تو انتخابات کے بعد انتقال اقتدار میں دیر کرنا نفرت کے زہر سے مشرقی پاکستان کو موت کی وادی میں دھکیلنے کے مترادف تھا۔

تازہ ترین